آم آدمی

250

اب جب کہ بڑے بڑے جی دار گھبرانے کی اجازت مانگ رہے ہیں، وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پہلی بار عام آدمی مطمئن نظر آرہا ہے۔ وزیراعظم سے منسوب یہ جملہ ہمیں املا کی غلطی محسوس ہورہی ہے۔ انہوں نے ’’آم آدمی‘‘ کہا ہوگا جو ممکن ہے آج بھی ان کے دکھائے گئے سبزباغوں میں کسی درخت سے لٹکا ہوا ہو۔ عام آدمی حکمرانوں کے نزدیک آم آدمی ہے جسے وہ الیکشن کے وقت بڑے پیار سے دیکھتے ہیں ہونٹوں سے لگاتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد چوسے ہوئے آم کی طرح اپنے دائرہ عمل سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ آج ریاست اور حکومت کا عام آدمی سے کوئی تعلق نہیں۔ عام آدمی تو کجا وہ دانشور، صحافی اور درمیانی طبقے کے شرفا بھی جو وطن عزیز کے مستقبل کے حوالے سے بڑے مطمئن نظر آتے تھے اب پریشان کن تبصرے کرتے نظر آتے ہیں۔ حکمرانوں اور ریاستی نا خدائوں کے اطمینان کا جہاں تک تعلق ہے وہ کب کے اس ملک سے پرواز کرچکے ہوتے اگر انہیں عام آدمی پر حکومت نہ کرنا ہو۔ جس طرح آم پھلوں کا بادشاہ ہے یہ لوگ بھی پاکستان میں بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں جب کہ بیرون ملک یہ حکمران طبقے کا حصہ نہیں ہوتے۔ انہیں عام آدمی کی طرح رہنا پڑتا ہے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک واقعہ سن لیجیے: 1997 میں جون ایلیا ایک مشاعرے میں شرکت کرنے کے لیے لاہور تشریف لے گئے۔ دوران مشاعرہ منیر نیازی نے انہیں بلاکر اپنے پاس بٹھایا اور آہستہ سے کہا ’’جون تم ایک پرلے درجے کے گھٹیا، نوٹنکی، ڈرامے باز شاعر ہو اور اسی بنیاد پر مشاعرہ لوٹتے ہو‘‘۔ جون نے انہیں بغور دیکھا اور پوچھا ’’جانی کیا لگائی ہوئی ہے (شراب پی ہوئی ہے)‘‘ منیر نیازی نے اثبات میں سر ہلایا تو جون مسکراتے ہوئے بولے ’’جانی! رائے تو میری بھی تمہارے بارے میں کچھ ایسی ہی ہے لیکن میں نے ابھی لگائی نہیں ہے‘‘۔ وزیراعظم عمران خان جس طرح کے بیانات دیتے ہیں اس کے لیے ترنگ کی ایک خاص کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے ممکن ہے یہ بیان بھی کسی ایسی ہی کیفیت میں دیا گیا ہو۔
جھوٹ بولنا عادت بن جائے تب آدمی اس کا اس طرح اسیر ہوجاتا ہے کہ اسے جھوٹ بھی سچ محسوس ہونے لگتا ہے۔ عمران خان جس یکسوئی اور ڈھٹائی کے ساتھ ملکی معیشت کی بہتری کے قصے بیان کرتے رہتے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی نوید سنارہے ہیں ممکن ہے اعداد وشمار کا یہ ہیر پھیر انہیں سچ لگنے لگا ہو اور وہ باور کررہے ہوں کہ عام آدمی آسودہ اور مطمئن ہے۔ ملکی معیشت قرضوں کے وینٹی لیٹر پر ہے، ملکی زرعی اجناس کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے اپنی ایکسپورٹر مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے باہر برآمد کردیا گیا جس کی وجہ سے مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی، اربوں روپے عوام کی جیبوں سے لوٹ لیے گئے، چینی اور گندم کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتیں بھی عروج پر ہیں، ہر ماہ ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں وہ الگ۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں تین سو فی صد اضافہ کردیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، چینی بینکوں اور داخلی قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کا ایک ہی حل ہے بہر عنوان عوام کو نچوڑنا۔ بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر عوام کا جوحال ہوتا ہے، ان کی جس طرح چیخیں نکلتی ہیں کاش کوئی ان چیخوں کو سن سکتا۔ لاکھوں محنت کش بیروزگاری کی دلدل میں اتر چکے ہیں۔ افراط زر، بالخصوص کھانے پینے کی اشیا میں افراط زر میں پاکستان ایشیا میں سب سے آگے ہے۔ کروڑوں چولھے ٹھنڈے پڑچکے ہیں۔ اتنے بڑے معاشی قتل عام کے بعد یہ دعویٰ کہ عوام مطمئن ہیں وزیراعظم عمران خان ہی ایسا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ ابراہیم جلیس مرحوم کو جھوٹ بولنے کی بہت عادت تھی۔ ایک دن حمید اختر نے ان سے کہا ’’میں نے زندگی میں بڑے بڑے جھوٹے دیکھے ہیں لیکن تم سے بڑا کوئی نہیں دیکھا۔ تمہاری نظر میں کوئی ہے جو جھوٹ بولنے میں تم سے آگے ہو‘‘۔ ’’ہاں ہے‘‘ جلیس نے کہا۔ حمید اختر نے پوچھا ’’کون؟‘‘ ’’میرے والد صاحب‘‘ جلیس نے جواب دیا ’’میں بی اے میں ایک نمبر کے مارجن سے پاس ہوا اس پر والد صاحب نے سارے حیدرآباد کی دعوت کردی کہ لڑکا یونی ورسٹی میں ایک نمبر پر آیا ہے‘‘ ایسے دعووں پر وزیراعظم عمران خان بھی جھوٹوں کے والد محترم محسوس ہوتے ہیں۔
جو حالات وطن عزیز میں پیدا کردیے گئے ہیں اس میں اگر کوئی مطمئن ہے تو وہ حکمران طبقہ ہے جسے یہ دھڑکا نہیں لگا ہوتا کہ دیکھیں اس ماہ حکومت پٹرول کے نرخوں میں کتنا اضافہ کرتی ہے۔ انہیں پٹرول سرکار کی طرف سے مفت ملتا ہے۔ ان کے گھر اور محلے لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔ روز دس دس گھنٹے ان کی بجلی نہیں جاتی۔ بجلی کے بل دیکھ کر ان کی چیخیں نہیں نکلتیں کیونکہ بجلی انہیں مفت ملتی ہے۔ آٹے اور چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں تو آٹے، چینی اور اشیاء صرف کی قیمتوں کا بھی پتا نہیں ہوتا۔ گزشتہ برس جب ٹماٹر تین سو روپے کلو مل رہے تھے وزیرخزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں ٹماٹر 17روپے کلو مل رہے ہیں جاکر چیک کرلیں۔ ادویات ناقابل خرید ہیں، علاج معالجہ عام آدمی تو ایک طرف متوسط طبقے کی دسترس سے بھی باہر ہوچکا ہے لیکن حکمران طبقے کے لیے نہیں۔ دنیا بھر کے اعلیٰ اور مہنگے ترین اسپتال ان کی خدمت کے لیے موجود ہیں جہاں لاکھوں کے بل بنیں یا کروڑوں کے ادائیگی سرکاری خزانے سے ہونی ہے۔ پانی کی قلت ان کا مسئلہ نہیں۔ ان کے نلکوں میں پانی قطرہ قطرہ نہیں آتا۔ وہ تو اپنے باغیچوں میں پانی کا پائپ کھلا چھوڑ کر بھول جاتے ہیں۔ ان کے گھروں میں ٹینکر نہیں ڈلتے۔ انہیں ٹینکروں کے حصول کے لیے صبح ہی صبح قطار میں نہیں لگنا پڑتا۔ ان کے بچے لا پتا نہیں ہوتے۔ اپنے بچوں، بھائیوں، شوہروں اور رشتہ داروں کی دستیابی کے لیے انہیں پلے کارڈز اٹھا کر در در دھکے نہیں کھانے پڑتے، حکمرانوں کو واسطے
دینے کے لیے ان کی گاڑیوں کی طرف لپکنا اور ان کی گاڑیوں کے آگے لیٹنا نہیں پڑتا۔ انہیں پریس کلب اور دوسرے مقامات پر بھوک ہڑتال اور احتجاجی کیمپ لگانے نہیں پڑتے۔ ان کے ماں باپ کو عدالتوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے، وکیلوں اور پولیس اہلکاروں کی جھڑکیاں اور بدتمیزیاں نہیں سہنی پڑتیں۔ ان کی بچیاں بھیڑیوں کی ہوس کا نشانہ نہیں بنتیں، ان کی کوئی بچی زینب نہیں ہوتی۔ شاہراہوں پر ان کی عورتوں کا بچوں کے آگے کوئی ریپ نہیں کرتا۔ ریپ کرنا تو کجا کسی کو ان کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ وہ کرائے کے گھروں میں نہیں رہتے۔ ان کا کوئی مالک مکان نہیں ہوتا۔ انہیں کوئی گھر خالی کرنے کے نوٹس نہیں دیتا۔ انہیں بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ٹھیلے نہیں چلانے پڑتے، فٹ پاتھوں اور خالی جگہوں پر پتھارے نہیں لگانے ہوتے، ان سے کوئی بھتا نہیں لیتا، تجاوزات کے خاتمے کے نام پر ان کے گھر اور دکانیں مسمار نہیں ہوتیں۔ انہیں کورونا ہوجائے تو سرکاری اسپتالوں میں پیناڈول کی گولیوں پر نہیں ٹرخایا جاتا۔ آغا خان اور دیگرپرائیوٹ اسپتال محض چار پانچ لاکھ روپے کے عوض انہیں فائیو اسٹار قرنطینہ کی سہو لتیں مہیا کرنے کے لیے موجود ہیں۔ آکسیجن سلنڈر اور وینٹی لیٹرز کی عدم دستیابی ان کا مسئلہ نہیں۔ کورونا کی وجہ سے بے روزگاری ان کے گھر پر دستک نہیں دیتی۔ ان کے گھر میں فاقے نہیں بچھتے۔ انہیں بائیک پر بیگم اور دو دو تین تین بچوں کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گرتے پڑتے سفر نہیں کرنا پڑتا۔ ان کے باپ دادا کی جائداد پر کوئی مافیا قبضہ نہیں کرتا۔ ان کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہیں پڑھتے اور نہ ہی گلی محلے میں خود روپودوں کی طرح پھیلے غیر معیاری انگلش میڈیم اسکولوں میں جن کی فیسیں ادا نہ کرنے پر بچوں کو کلاس روم میں کھڑا رکھا جاتا ہے۔ پوری کلاس کے سامنے وارننگ دی جاتی۔ انہیں مہنگی کورس کی کتابوں سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بچوں کو استعمال شدہ پرانی کتابیں خرید کردینے پر مجبور نہیں ہوتے۔ ان کا موبائل نہیں چھینا جاتا۔ انہیں محنت کشوں ہیلتھ ورکرز اور کسانوں کی طرح پولیس کی لاٹھیاں نہیں کھانی پڑتی۔ انہیں بسوں اور ویگنوں پر لٹک کر سفر نہیں کرنا پڑتا۔ انہیں۔۔۔