سعود ساحر، ویران مورچے کا مستعد سپاہی

235

راولپنڈی اسلام آباد کی دنیائے صحافت کا مقبول اور جانا پہچانا کردار ’’شاہ جی‘‘ اور نام سید سعود ساحر بھی راہی ملک عدم ہوگئے۔ موج ِ صبا کی طرح ہمہ وقت متحرک شاہ جی ایک دن یوں کنج ِ مزار میں پائوں پھیلا کے سوئیں گے لمحہ بھر کو یہ تصور بھی عجیب لگتا ہے۔ سید سعود ساحر سرد جنگ کے خالص نظریاتی دور کے انسان تھے۔ انہوں نے صرف ایک بار اپنے نظریاتی مقام پر اس وقت نظرثانی کی جب وہ کمیونسٹ پارٹی کے حلقہ ٔ اثر سے نکل کر دائیں بازو کی طرف منتقل ہوئے پھر ساری زندگی اس مورچے پر قلم کو کمان اور بندوق بنائے مستعد اور چوکس کھڑے رہے یہاں تک سرد جنگ ختم بھی ہوگئی۔ نظریاتی کشمکش اختتام کو پہنچی اور دنیا گلوبلائزیشن کے نام پر نظریات سے توبہ تائب بھی ہوئی مگر سعود ساحر ان دنوں کی یاد میں جینے لگے۔ وہ نظریاتی سیاست وصحافت کے ویران ہوجانے والے مورچے پر بدستور اپنا ہتھیار سنبھالے اس انتظار میں رہے کہ شاید پھر نظریاتی سیاست کا طبل جنگ بج اُٹھے اور ان کا قلم شعلے اُگلنے لگے۔ سید سعود ساحر صحافت اور مزاحمت کے ایک دور کا نام تھا۔ صحافیوں کے مسائل کے لیے ہمہ وقت مستعد اور تیار شخصیت۔ اگر کوئی صحافی مسئلہ بیان کرے تو شاہ جی اسے حل کرنے کے لیے ’’چلو پھر چلتے ہیں‘‘ کہہ کر مسئلہ حل کرنے نکل پڑتے۔
شاہ جی سے ایک قاری کی حیثیت سے تعارف تو اسی کی دہائی میں ہوا تھا مگر اصل تعارف اور تعلق یوں بنا کہ ہم دونوں دو اداروں میں کام کرتے رہے۔ جنوری 1990 میں تکبیر سے وابستہ ہوا تو شاہ جی پہلے سے یہاں اسلام آباد کی ڈائری کے عنوان سے قومی سیاست پر اپنے قلم کی دھاک بٹھائے ہوئے تھے۔ اسی دوران میں نے جسارت میں باقاعدہ لکھنا شروع کیا تو فرائیڈے اسپیشل میں بھی ہم بطور قلم کار اکٹھے ہوئے۔ فرائیڈے اسپیشل ابھی نیا نیا شروع ہوا تھا اور اس کا ٹائٹل بھی عام اخباری کاغذ کا ہوتا ہے لیکن اس میں لکھنے والوں کی ایک کہکشاں بن چکی تھی۔ شاہ جی میلوڈی میں کشمیر انفارمیشن سینٹر آتے اور فرائیڈے اسپیشل میں اپنا پورا کام پڑھتے۔ بعد میں، میں نے یہ بات نوٹ کی اکثر شاہ جی اپنی تحریر شائع ہونے کے بعد ایک بار ضرور پڑھتے۔ ان کی تحریر ہوتی ہی اس قدر خوبصورت، برجستہ اور کاٹ دار تھی کہ ایک بار پڑھنے سے تشفی نہ ہوتی۔ شاہ جی کچھ ہی عرصہ بعد جسارت چھوڑ کر مکمل طور پر تکبیر سے وابستہ ہوگئے اور میں ان دونوں اداروں سے بیک وقت وابستہ رہا۔ تکبیر کا بیورو آفس اس وقت بلند مرکز چائنا چوک میں ہوتا تھا۔ شاہ جی کی تحریر پُر لطف ہوتی تھی وہ اکثر کہا کرتے کہ تحریر ایسی ہو کہ کم ازکم پانچ دس منٹ تک اس کا ذائقہ محسوس ہوتے رہنا چاہیے۔ سعود ساحر کی تحریر کا ذائقہ اور لذت تادیر محسوس ہوتی تھی۔ وہ تحریر میں بے باکی کے قائل ہی نہیں تھے کہ قدرت نے انہیں جرأت ِ اظہار بھی بدرجہ اُتم عطا کر رکھی تھی۔ محفل آراء بھی تھے اور محفل پر چھا جانے کا فن بھی رکھتے تھے۔ جس بات کو غلط سمجھتے پریس کانفرنس کے دوران ماحول اور مخاطب کے موڈ کا لحاظ کیے بغیر اظہار کر ڈالتے۔ اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے سے گریز کرتے۔ اپنی بات کہنے کے قائل تھے مگر ٹھونسنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اسی لیے اپنی رائے کے قطعی متضاد رائے کا اظہار کرنے والے جونیرز سے ان کا تعلق کمزور نہ پڑتا۔ شاہ جی کا کالم پڑھیں تو جملے موتیوں میں پروئے ہوئے ملتے اور ان کی رپورٹنگ پڑھتے تو ایک کہنہ مشق رپورٹر صاف جھلک رہتا ہوتا۔ وہ اچھے کالم نگار تھے یا رپورٹر؟ شاید وہ صحافت کے ہر فن مولا تھے۔
نوے کی دہائی میں دو جماعتی سیاسی نظام اور ٹوٹتے بنتے نقوش کے حوالے سے ان کی اپنی رائے ہوتی اور میں ایک الگ لائن پر لکھتا تھا۔ اس اختلاف کے باوجود انہوں نے کبھی اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بھاری مینڈیٹ کے زمانے میں نوازشریف ساری طاقت وزیر اعظم کے عہدے میں سمیٹ رہے تھے تو طاقت کے اس سفر کے انجام کو دیکھتے ہوئے میں نے ’’میاں صاحب آگے اڈیالہ ہے‘‘ کے نام سے جسارت میں کالم لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ نوازشریف نے جتنی طاقت اپنی ذات میں سمیٹنا تھی سمیٹ چکے اب آگے اڈیالہ جیل ہے۔ دوسرے دن شاہ جی سے ملاقات ہوئی ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ آپ نے تو سیدھا گولہ داغ دیا ہے۔ میں نے کہا کہ شاہ جی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے یہاں طاقت کی ایک مخصوص مقدار ہی حکمران کو ہضم ہوتی ہے۔ نوازشریف ’’اوورڈوز‘‘ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کی چیف ایگزیکٹو کے طور پر پہلی تقریر طویل اور اُکتا دینے والی تھی۔ میں نے لکھا کہ یہ مستقبل کے کسی حکمران کا خطاب ہے یا سیاسیات کے کسی اُستاد کا لیکچر۔ شاہ جی سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کل میں نے آپ کا کالم دفتر میں لوگوں کو پڑھایا ہے بہت اچھا لکھا تھا۔ یہ دوسرے نقطہ ٔ نظر کے حوالے سے کیا جانے والا ان کے تبصرے کا منفرد انداز تھا جس میں حوصلہ افزائی کا پہلو بہت نمایاں ہوتا تھا۔ جنرل مشرف کے دور میں چند دوستوں کے ساتھ مل کر میں نے راولپنڈی سے اپنا پندرہ روزہ پرچہ صدائے حریت نئے انداز سے شائع کیا۔ اس کے دوسرے شمارے کے لیے میں نے سعود ساحر کا ایک طویل انٹرویو کیا۔ جس میں انہوں نے اپنی تاریخی یادداشتیں بیان کیں حال مستقبل کی سیاسی صورت گری پر اپنا تجزیہ بھی پیش کیا۔ ہجرت کی وجوہات بیان کیں۔
سید سعود ساحر بھارتی ریاست یوپی کے شہر سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق جمعیت العلمائے ہند اور مجلس احرار کے حامی گھرانے سے تھا۔ خود سید سعود ساحر کا گھر مسلم لیگی ذہن کے افراد پر مشتمل تھا اسی لیے قیام پاکستان کے بعد ان کے گھر والوں کے لیے سہارن پور میں زندگی گزارنا آسان نہ رہا اور 1951 میں ہجرت کرکے راولپنڈی آگئے۔ سید سعود ساحر کے تایا سعید احمد شاعر تھے جبکہ ان کے بڑے بھائی حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری بلند پاپہ مقرر اور خوبصورت شاعر تھے۔ یہی اثرات سعود ساحر کی شخصیت پر بھی مرتب ہوئے اور انہوں نے قلم وقرطاس کے ساتھ جو رشتہ قائم کیا آخری سانس تک بحال رہا۔ سید سعود ساحر نے صحافتی سفر کا آغاز روزنامہ تعمیر سے کیا۔ جہاں ان کی تنخواہ پچھتر روپے مقرر ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد خان عبدالقیوم خان نے انتخابی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے ناقوس کے نام سے اخبار نکالا تو تعمیر کے کئی کارکنوں کے ساتھ سعود ساحر بھی ناقوس میں چلے گئے مگر یہ اخبار چار پانچ ماہ سے زیادہ نہ چل سکا اور یوں سید سعود ساحر بھی ناکام تجربے کے بعد تعمیر اخبار میں واپس آگئے۔ اس کے بعد کوہستان، زندگی، جسارت، اُمت، تکبیر، اردو نیوز جدہ سعود ساحر کی قلمی کرشمہ سازیوں کے میدان رہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے پلیٹ فارم سے اپنے ہم پیشہ اخبار نویسوں کے حقوق کے لیے مالکان اور حاکم وقت سے ٹکراتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں انہیں صحافتی ادارے کی بندش کی وجہ سے بے روزگاری کا شکار ہونا پڑا۔ بھٹو عہد کا خاتمہ ہوا مگر سعود ساحر باقی زندگی اسی عہد میں جیتے رہے۔ انٹرویو کے دوران میں نے ان سے طنزیہ انداز میں سوال پوچھا کہ بھٹو کے بعد پاکستان میں جو دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں ان کا احوال بھی سنائیں۔ شاہ جی تھوڑا سا چڑ کر کہنے لگے بھائی میں ضیاء الحق کی وکالت نہیں کر رہا میں وہ بات کر رہا ہوں جو بھٹو دور میں ہم پر بیتی۔ صلاح الدین کو ساڑھے چار سال کس جرم میں بند رکھا گیا۔ مجیب الرحمان شامی کو میجر نے پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ بھٹو دور میں سیاسی قیدیوں کے لیے قائم دلائی کیمپ کے قیام کی انکشاف انگیز خبر سعود ساحر ہی نے ہفت روزہ زندگی میں بریک کی۔ وہ جان جوکھم میں ڈال کر مظفر آباد سے چند کلومیٹر دور دریائے جہلم کے کنارے اس کیمپ کے خفیہ دورے پر بھی پہنچے اور قلم وکاغذ کے بغیر ذہن میں باتیں محفوظ کر کے ایک اسٹوری کا مواد لے کر وہاں سے بخیریت چل دیے۔ انہیں بطور ویر اعظم بھٹو صاحب کی آخری پریس کانفرنس بھی یاد تھی جسے انہوں نے کور کیا تھا۔ سعود ساحر صحافت وسیاست کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ وہ ایک متحرک اور انقلابی روح تھی جو قفس عنصری پار کرنے کے بعد پہلے سے زیادہ متحرک اور رواں دواں ہوگی۔ ناصر کاظمی نے کہا ہے کہ
شکستہ پاراہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا وہ
سعود ساحر کا عہد گزرگیا تھا اور ایک روز وہ بھی گئے دنوں کو بلاتے بلاتے خود چلے گئے۔