کیا صنم خانے سے کعبے کا پاسبان مل گیا

342

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے نسل پرستی اور شیطانیت کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے۔ ڈیلاوئر میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب نسل پرستی کا خاتمہ کرنے کی جنگ کا وقت ہے، ہم لوگوں کو تقسیم نہیں متحد کریں گے اور امریکا کو ایک بار پھر دنیا بھر میں قابل احترام بنائیں گے۔ جوبائیڈن نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا میں شیطانیت کا سنگین دور ختم ہونے دیا جائے، وہ بھی امریکی ہیں، انہیں امریکیوں کی طرح ہی دیکھیں، سخت بیانات کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
نو منتخب صدر کی تقریر اگر کسی جذباتیت کے بغیر سنی جائے تو یہ کوئی ایسی انہونی نہیں جس پر دنیا بھر کے مسلمان خوشیاں منائیں یا بھنگڑے ڈالیں۔ بائیڈن کو اپنی جیت کے بعد یہ بات تو بہر حال نہیں کہنا تھی کہ میں سابقہ صدر ٹرمپ کے قدم سے قدم ملا کر چلوں گا، ان ہی کی طرح امریکا میں رہنے والوں کے درمیان دوریاں پیدا کروں گا، اپنے ہی ملک میں کوئی ایسی فضا پیدا کروں گا جس کی وجہ سے خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہوجائے اور پورا امریکا خلفشار کا شکار ہو جائے۔ وہ انتخابات سے قبل جو باتیں عوام سے وقتاً فوقتاً کہتے رہے، ان ہی سب باتوں کو اپنی جیت کے بعد یکجا کر کے دہرا دیا جس سے کم از کم یہ ضرور ہوگا کہ امریکا میں جس قسم کی کشیدگی جنم لے چکی ہے اس میں کافی حد تک کمی ضرور آئے گی۔
انتخابات سے قبل یا منتخب ہوجانے کے فوراً بعد حکمرانوں کی جانب سے جو وعدے اور دعوے بھی سامنے آتے ہیں وہ ہوتے تو بہت خوش کن ہیں لیکن آنے والے ماہ و سال عام طور سے اس کے برعکس ثابت ہوتے ہیں کیونکہ جب کوئی بھی حکمران واقعتاً تخت شاہی پر متمکن ہوتا ہے تب اسے حساس ہوتا ہے کہ ویسا ہی کچھ کرنا 100 فی صد ممکن نہیں جیسا کہا گیا تھا۔ اگر بائیڈن کی انتخابات سے قبل کی تقاریر کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے بارے میں وہ جو کچھ خوش خبریاں دیتے رہے تھے وہ بالکل اسی انداز میں سنائی جاتی رہیں جیسے وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے بارے میں ہوں اور اب تک ٹرمپ دنیا بھر کے مسلمانوں کو جس طرح آپس میں لڑاتے رہے ہیں، وہ یعنی بائیڈن، ایسا کچھ بھی نہیں کریں گے اور ساری دنیا کے مذاہب، بشمول اسلام، پر چلنے والوں کو لڑانے کے بجائے ان سب کو ایک بنا کر اس کرہ ارضی کو جنت نظیر بنا نے کی جدو جہد کریں گے لیکن منتخب ہوتے ہی انہیں جو باتیں بھی عوامی اجتماع کے سامنے کہیں، احادیثوں کے حوالے دیے اور اسلام کی بنیادی تعلیمات پر جس انداز میں اظہارِ خیال کیا، اس کی ساری کی ساری حدیں صرف اور صرف امریکا کی سرحدوں کی حدود تک ہی محدود تھیں۔ ہر ملک کے سربراہ کی طرح انہوں نے اپنے ہی ملک کے اندر محدود رہتے ہوئے اپنی ان ساری باتوں کو جس میں انتخابات سے قبل ’’آفاقیت‘‘ کی واضح جھلک نظر آتی تھی ’’علاقائیت‘‘ تک محدود کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک پائے کے سیاست دان ہیں اور اپنی ہی باتوں کو جس انداز میں چاہیں نہایت خوبصورتی کے ساتھ ایک نیا موڑ دینا خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔
امریکا میں لاکھ دو لاکھ نہیں، کروڑوں ایسے افراد آباد ہیں جن کا نسلاً کوئی تعلق امریکا کی سر زمین سے نہیں۔ وہاں ایک بہت بڑی تعداد ’’کالوں‘‘ کی بھی ہے اور خود مسلمان بھی ایک بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ کالوں اور گوروں میں تو ازلی دوریاں ہیں ہی، وہاں ٹرمپ کے دور میں مسلمانوں سے بھی نفرتیں بڑھائی گئیں۔ ایک جانب کالوں اور گوروں کی شدید چپقلش امریکا کے لیے پہلے ہی بڑی درد سری تھی کہ مسلمانوں سے دوریاں امریکا کے لیے مزید وبال بن سکتی تھیں۔ بائیڈن کے اعلانات بظاہر امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بہت ہی خوش کن سہی لیکن یہ سب اعلانات صرف اور صرف اس ڈر اور خوف کو امریکیوں کے دلوں سے کم کرنے علاوہ اور کچھ نہیں جو انہیں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے غم و غصے کے نتیجے میں دکھائی دے رہا تھا۔ مسلمان خواہ کتنا ہی گناہگار ہوجائے لیکن کئی باتوں پر وہ کسی بھی صورت سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ دنیا میں جس انداز میں شعائر اسلامی، قرآن اور آپ (ص) کے ساتھ گستاخانہ طرز عمل بڑھتا جا رہا تھا، یورپ سمیت امریکا میں بھی اس کے خلاف شرید رد عمل پایا جاتا تھا۔ امریکی مسلمان بھی سخت غصے میں نظر آرہے تھے۔ اس کشیدگی کا ایک سبب ٹرمپ کی عالم اسلام کے خلاف غلط پالیسیاں بھی تھیں۔ ان سب کا تقاضا تھا کہ کسی نہ کسی طرح امریکی مسلمانوں کے جذبات کو سرد کیا جائے۔ اس تجزیے کی روشنی میں یہ سمجھ لینا کوئی مشکل نہیں کہ بائیڈن کے کامیابی حاصل کرلینے کے بعد خطاب میں اگر کسی حد تک مسلمانوں کو کچھ ریلیف ملنا بھی تھا تو وہ صرف اور صرف امریکی مسلمانوں ہی کو ملنا تھا۔ یہ بھی بہر کیف ایک خوش کن اعلان سہی لیکن عالم اسلام کو اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ امریکا کی پالیسی ان کے حق میں تبدیل ہو جائے گی۔
امریکا میں صدور آج سے نہیں بدلے جا رہے البتہ کافی عرصے کے بعد کوئی صرف صرف 4 سال کے بعد دوبارہ منتخب ہونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ان کا صدر بدلا ہے اور اس سے قبل بھی 48 صدور آکے جا چکے ہیں لیکن اگر کوئی چیز بدل کر نہیں دے رہی وہ امریکا کی دنیا اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف پالیسی ہے لہٰذا دنیا بھر کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے، ان کو جو بائیڈن کے متعلق اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ ’’امریکی صنم خانے سے کعبے کا پاسبان مل گیا ہے‘‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ شیطان ایک نئے ماسک کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے اور اس کا یہ روپ پہلے سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔