کراچی واقعہ… فوجی تحقیقاتی کمیٹی کا فیصلہ

316

میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کی کراچی میں گرفتاری اور آئی جی سندھ کے تحفظات سے پیدا ہونے والے تنازعے کے بارے میں فوجی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ جاری کردی گئی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر قائم کی گئی تھی جس کے سربراہ کورکمانڈر کراچی تھے۔ جنرل باجوہ نے آئی جی سندھ مشتاق مہر کی جانب سے تحفظات کے اظہار اور سینئر پولیس افسران کی جانب سے رخصت پر جانے کے اعلان کے بعد کیا تھا۔ اس پس منظر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے بھی پریس کانفرنس کے ذریعے بری فوج کے سربراہ سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور الزام عاید کیا تھا کہ پولیس افسران کی توہین کی گئی ہے اور آئی جی سندھ کو اغوا کرکے زبردستی کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم جاری کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس واقعے نے کشیدہ سیاسی صورت حال میں مزید پیچیدگی پیدا کردی تھی اور دو ریاستی اداروں فوج اور پولیس کے درمیان ٹکرائو کا بظاہر منظرنامہ نظر آرہا تھا، لیکن اس مرحلے پر فوری طور پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلاول زرداری سے فون پر بات کی اور تحقیق کرانے کا وعدہ کیا۔ اس طرح فوری طور پر معاملہ ٹھنڈا کردیا گیا۔ افواج پاکستان کے شعبے تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے سے قبل میاں نواز شریف کا بیان آیا تھا جس میں طنز کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایک معمولی سے مسئلے پر ابھی تک تحقیق مکمل نہیں ہوسکی۔ افواج پاکستان شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں مختصر الفاظ میں نتائج جاری کیے گئے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کی 18 اکتوبر کو پیش آنے والے واقعے کی شکایات پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے کورٹ آف انکوائری قائم کی تھی۔ کورٹ آف انکوائری نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 18 اور 19 اکتوبر کی درمیانی شب پاکستان رینجرز (سندھ) آئی ایس آئی سیکٹر ہیڈ کوارٹر کراچی کے افسران مزار قائد کی بے حرمتی کے واقعے پر ممکنہ عوامی ردِعمل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا تھے اور انہیں قانون کے مطابق کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے شدید عوامی دبائو کا سامنا تھا۔ پولیس کے ممکنہ طور پر سست ردعمل کا اندازہ لگاتے ہوئے ان افسران نے جذباتی ردعمل کا اظہار کیا۔ ان افسران کو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کیوں کہ ان کے اس اقدام کی وجہ سے دو ریاستی اداروں میں غلط فہمی پیدا ہوئی۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی جی سندھ کو اغوا کیا گیا نہ ہی ان کے خلاف طاقت استعمال کی گئی۔ کورٹ آف انکوائری کی سفارشات پر ان افسران کو موجودہ ذمے داریوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان کے خلاف جی ایچ کیو میں اپنے شعبوں میں مزید کارروائی کی جائے گی۔ آئی ایس پی آر کے مختصر اعلامیے کے بعد اس تنازع کا ایک مرحلہ مکمل ہوگیا۔ فوج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ دبائو ڈال کر سابق وزیراعظم کے داماد کے خلاف مزار قائد کی بے حرمتی کا مقدمہ درج کراکر انہیں ہوٹل سے گرفتار کیا گیا۔ اس عمل سے یہ حقیقت بھی ظاہر ہوگئی ہے کہ پولیس افسران کی جانب سے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو ہدایت تھی کہ وہ ایف بی آئی آر درج نہیں کریں گے۔ افواج پاکستان کے اعلامیے کا پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آرمی چیف سے کراچی واقعے پر انکوائری کی درخواست کی تھی جس کے بعد انہوں نے انکوائری کرائی۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے ایکشن سے اداروں کی ساکھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ جبکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ آئی جی سندھ کے اغوا کے واقعے کی انکوائری رپورٹ میں اصل ذمے داروں کو بچانے کے لیے ماتحت افسروں کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا ہے۔ ہم اس انکوائری رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے حسب توقع اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مسلح افواج میں خود احتسابی کے عمل کو سراہتی ہے۔ اب بغاوت کرنے والے سندھ پولیس کے افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ افواج پاکستان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں متعلقہ افسران کے نام اور عہدے نہیں بتائے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ بھی سیکورٹی امور سے تعلق رکھتا ہے؟ اس واقعے نے ہمارے نظام حکمرانی پر جو سوالات قائم کیے ہیں ابھی تک ان کے جواب نہیں ملے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ہو یا غیر سیاسی قیادت سب امور مملکت میں تدبر اور بصیرت سے محروم ہیں۔ صرف طاقت کی جنگ ہے۔ اس مسئلے پر صوبائی حکومت نے وزرا کی تحقیقاتی کمیٹی بھی قائم کی تھی۔ اس کے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ دونوں کے نتائج کے موازنے کے بعد پس پردہ حقائق کی جھلکیاں نظر آنے کی توقع ہے۔