جرمنی جرائم پیشہ افراد پت تحقیق کرنے والی ایک ٹیم نے جرمن پولیس میں نسل پرستی اور افسران کے ظلم و بربریت کی تحقیقات میں کئی سال گزارے ہیں اور اب جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ پرشان کُن ہے خطرناک ہیں۔
“جرمن کے ایک 24 سالہ لبنانی نژاد مسلمان عمر ایوب کے مطابق اُن کی پوری فیملی پولیس کے تعصبانہ رویے کے شکار ہوچکی ہے۔ انہوں بتایا کہ میری بہن نے ایک دن مجھے بتایا کہ وہ باہر کہیں جارہی تھیں تو اُن پر پاس میں کھڑے ایک پولیس افسر نے کہا کہ ‘اب آپ اپنے ملک میں نہیں ہو، لہٰذا اب جانوروں کی طرح زندگی نہیں گزارنا۔’
اسی طرح رمضان المبارک مہینے میں اپریل کی ایک شام، ایوب اور اُن کے اہل خانہ افطار کررہے تھے جب پولیس نے اچانک دروازے کی گھنٹی بجائی۔ انہوں نے گھر کی تلاشی لینے کا مطالبہ کیا۔ جب ایوب انکار کردیا اور دروازہ بند کرنے کی کوشش کی تو پولیس زبردستی اندر داخل ہوئی اور انہیں مارا۔
لیلیٰ عبدالرحمٰن ، جو بوچم یونیورسٹی میں پچھلے دو سالوں سے پولیس کی بربریت اور نسل پرستی پر تحقیقات کر رہی ہیں، نے اور ان کے ساتھیوں نے 3،000 سے زیادہ لوگوں کا انٹرویو کیا جن کا تعلق اقلیت کمینوٹی سے تھا۔ انٹرویو کے بعد ٹیم نے جرمن پولیس کی مسلمان نفرت اور بربریت پر رپورٹ شائع کی ہے۔