ن لیگ کا بڑا یو ٹرن ، فوج سے مذاکرات کیلیے تیار

54

 

اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک)مسلم لیگ نواز نے بڑا یوٹرن لیتے ہوئے فوج سے مذاکرات کا اعلان کردیا۔سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی اورن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ فوج سے بات کے لیے تیار ہیں لیکن پہلے اس جعلی حکومت کو گھر بھیجاجائے۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھاکہ اسٹیبلشمنٹ نے میرے ارد گرد موجود بہت سے لوگوں سے رابطے کیے ہیں مگر میرے ساتھ براہِ راست کسی نے رابطہ نہیں کیا۔مریم نواز نے کہاکہ ادارے کے مخالف نہیں ہوں ،فوج میرا ادارہ ہے، ہم ضرور بات کریں گے لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور وہ بات اب عوام کے سامنے ہو گی، چھپ چھپا کر نہیں ہو گی، پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کے آغاز پر
غور کیا جا سکتا ہے ۔ن لیگ کی نائب صدر کے بقول تمام ‘اسٹیک ہولڈرز’ سے بات کر سکتی ہوں اور ڈائیلاگ تو اب عوام کے ساتھ ہو رہا ہے اور اتنا اچھا ہو رہا ہے کہ فورسز اور جعلی حکومت وہ گھبرائے ہوئے ہیں، اتنا گھبرائے ہوئے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیسے ردعمل دینا ہے ، گھبراہٹ میں وہ اس قسم کی غلطیاں کر رہے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اس ملک کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر عوام ہیں۔مریم نواز نے کے مطابق ن لیگ کی سیاست بند گلی کی جانب نہیں جارہی،بند گلی کی طرف وہ لوگ جا رہے ہیں جنہوں نے یہ مصنوعی چیز بنانے کی کوشش کی، ہم تو جہاں جا رہے ہیں، چاہے وہ گوجرانوالہ ہے، کراچی ہے، کوئٹہ ہے یا گلگت بلتستان ہر جگہ ایک ہی بیانیہ گونج رہا ہے اور وہ ہے ووٹ کو عزت دو اور ریاست کے اوپر ریاست مت بناؤ۔اس بات پر کہ بلاول بھٹو کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ نواز شریف کی جانب سے انتخابات میں فوج کی مداخلت کے ثبوت سامنے لانے کے منتظر ہیں مریم نواز کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے بات بعد میں کی ہے اور ثبوت خود عوام کے سامنے آئے ہیں، شوکت عزیز صدیقی، جج ارشد ملک اور ڈان لیکس کی حقیقت آپ کے سامنے ہے جب آپ ایک چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں کرتے تو وہ ڈان لیکس جیسی ایک جھوٹ پر مبنی چیز کھڑی کر دیتے ہیں۔ن لیگ کی نائب صدر نے کہا کہ کراچی واقعے پرآئی ایس آئی کی پریس ریلیز سے عوام کو جواب نہیں ملے بلکہ مزید سوالات کھڑے ہوئے ہیں،آپ قوم کو یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ جذباتی افسران نے عوامی دباؤ کا ردِعمل دیتے ہوئے یہ کیا، کون سا عوامی ردِ عمل تھا، وہ جعلی لوگ جنہوں نے مقدمہ درج کروایا اور پھر مدعی ہی بھاگ گیا، ان تین چار لوگوں کے دباؤ کو آپ عوامی دباؤ کہتے ہیں۔مریم نوازکا کہنا تھا کہ عوامی ردِ عمل کا جواب دینا آئین کے مطابق اداروں کا کام نہیں منتخب حکومت کا کام ہے، اداروں کا کام اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں نبھانا ہے ناکہ جذبات دکھانا،اداروں کا کام جذبات کے ساتھ نہیں ہے اگر واقعی کسی نے یہ جذبات میں آکر کیا ہے تو یہ تو ادارے کے لیے اور پاکستان کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے،چند جونیئر افسران کو قربانی کا بکرہ بنا دیا گیا۔ان ہاؤس تبدیلی یا مائنس عمران خان فارمولے کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مائنس عمران خان دیکھا جائے گا ،اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گی لیکن جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا، اس حکومت کے ساتھ بات کرنا گناہ ہے،ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے عمران خان اور حکومت کو گھر جانا ہوگا اور نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں اور عوام کی نمائندہ حکومت آئے،تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد انہیں معافی دینے کے مترادف ہوگا جو میری نظر میں جائز بات نہیں ہے،اب ان کے احتساب کا وقت ہے، ان کے ساتھ الحاق کا وقت نہیں ہے،اب جب کہ وہ کمزور ہوگئے ہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ معاشی صورتحال ان نالائقوں کے ہاتھوں بہتر نہیں ہوسکتی، یہ حال ہوتا ہے جب آپ لوگوں کے ووٹ چوری کریں۔