عمران خان پی ڈی ایم کو مضبوط بنا رہے ہیں

159

ملکی سیاست کی ایک دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ جن سیاسی جماعتوں نے بڑے تزک و احتشام سے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ بنایا تھا اب وہی اس کو توڑنے کی غیر شعوری کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں اور عمران خان جن کی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کا جو اتحاد پی ڈی ایم کی صورت میں ہے اس کو بے اثر کرنے کے بجائے اس کو مضبوط بنانے کی جدو جہد میں دن رات مصروف نظر آتے ہیں۔ عمرانی دور حکومت میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی از خود پی ڈی ایم کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا ہے اور وہ اسے کم کرکے رہیں گے ان کے اس بیان سے پاکستانی عوام کے دل بیٹھنے لگتے ہیں کہ اب آٹا چینی اور مہنگی ہو جائیں گی، ماضی قریب میں جب بھی وزیر اعظم نے مہنگائی کا نوٹس لیا اشیاء اور مہنگی ہوتی چلی گئیں۔ عمران خان جو بھی اقدام اٹھانا چاہتے ہیں ہماری بیورو کریسی اسے ناکام بنا دیتی ہے۔ عمران خان نے یہ تو کام کیا ہے کہ اپنے دور میں کرپٹ عناصر کے عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔
پاکستانی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب ملک میں چوروں اور ڈاکوئوں کی حکومت ہوتی ہے یا مارشل لا کا دور ہوتا ہے تو قیمتیں عموماً مستحکم رہتی ہیں۔ ان کے ادوار میں مہنگائی برسوں یا مہینوں میں بڑھتی ہے لیکن عمرانی دور حکومت میں تو مہنگائی روزآنہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے عوام کی پریشانیاں بڑھتی جارہی ہیں اور اب سے تین سال پہلے تک جو امیج عمران خان کا عوام کی نظروں میں تھا وہ مجروح ہو کر رہ گیا۔ جب ہم اس کی وجوہ اور اسباب پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عمران خان نے اپنے جو مشیر اور معاونین بنائے ہیں وہ سب غیر منتخب اور سرمایہ دار لوگ ہیں جو سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں اس لیے ان کی دنیا الگ ہے اور غریبوں کی دنیا الگ ہے ان کا ایک ہی میرٹ ہے کہ وہ عمران خان کے دوست ہیں۔ ان کے پاس اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔ خود عمران خان بہت زیادہ سرمایہ دار یا دولت مند تو نہیں ہیں لیکن کسی نہ کسی حوالے سے ان کا شمار بھی اسی کیٹگری میں ہوتا ہے۔
اب اگر ایک طرف عمران خان کے دور میں ہونے والی مہنگائی پی ڈی ایم کو مضبو بنارہی ہے، تو دوسری طرف خود پی ڈی ایم کے رہنما اپنے اتحاد کو کمزور کرنے کی لا شعوری کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں گلگت بلتستان میں ہر سیٹ پر ن لیگ اور پی پی پی آمنے سامنے ہے اگر یہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے نہ بھی لڑتے (ویسے تو انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ہے) تو کم از کم یہ تو ہو سکتا تھا کہ الیکشن ایڈجسٹمنٹ ہو جاتا تاکہ پی ٹی آئی کے سامنے اپوزیشن کے ووٹ تو تقسیم نہ ہوتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلاول زرداری کا بیان آیا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں یہ طے ہوا تھا کہ کسی کا نام نہیں لیا جائے گا بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا جائے گا ایاز صادق کا جو بیان آیا اس میں جملوں کی ترتیب کچھ اس طرح سے بن گئی کہ جیسے انہوں نے یہ بات باجوہ صاحب کے بارے میں کہی ہو کہ ان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور ماتھے پر پسینہ آرہا تھا حالانکہ یہ بات انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود کے بارے میں کہی تھی کہ انہوں نے کہاکے اگر ہم نے بھارتی پائلٹ کو نہیں چھوڑا تو رات 9بجے بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے، حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے 8حساس مقامات کو اپنے ٹارگٹ پر لیا تھا تو پاکستان نے بھارت کے 12اہم مقامات کو اپنے ٹارگٹ پر لیا ہوا تھا اور یہ بات بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے بھارت تک پہنچ چکی تھی۔ بھارت کے اوپر بین الاقوامی دبائو بہت زیادہ تھا کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ اٹھائے جس سے پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے۔ بھارتی پائلٹ کو چھوڑنے کے حوالے سے تو وزیر اعظم پاکستان پہلے ہی فیصلہ کرچکے تھے اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تنائو کی کیفیت میں کمی آجائے گی۔
ایاز سادق کے اس بیان نے پی ڈی ایم میں انتشار پیدا کردیا کہ کچھ لوگ ان کے حمایتی بن گئے تو کچھ لوگوں نے ان کے بیان کی مخالفت کی انہوں معذرت کرنے سے بھی انکار کردیا ن لیگ کے اندر سے بھی یہ آواز اٹھی کہ ایازصادق کو معافی مانگنی چاہیے جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن تو اتنے خوش ہوئے کہ وہ دوسرے دن ایاز صادق کے گھر پہنچ گئے جس پر ان ہی کی جماعت کے حسین احمد نے شدید تنقید کی اور شیرانی صاحب نے بھی ایاز صادق کے بیان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
بہر حال اس طرح کی اور بھی باتیں ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف پی ڈی ایم کی جماعتوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں بلکہ خود اتحاد کی بڑی جماعتوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ ن لیگ بلوچستان کے اہم رہنما عبدالقادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری نے ن لیگ سے اپنی رفاقت ختم کرنے کا اعلان کردیا، جے یو آئی کے اندر بھی اس حوالے سے انتشار کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ عمران خان کو چاہیے کے وہ مہنگائی کو کم کرنے کی کوششیں کریں اور پی ڈی ایم سے نہ گھبرائیں کہ پی ڈی ایم کے رہنما خود اس اتحاد کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہیں اب 14نومبر کو ایک نئے میثاق کی بات ہو رہی ہے دیکھیے اس میںکیا ہوتا ہے۔