’’یوٹرن‘‘ کو عام طور پر وزیر اعظم عمران خاں سے منسوب کیا جاتا ہے اور دیکھا جائے تو یہ کچھ غلط بھی نہیں، ان کے 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے کی تقریروں اور نعروں کو پیش نظر رکھا جائے اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے قول و فعل دونوں باہم متضاد و متصادم ہیں، وہ اقتدار میں آنے سے قبل جن کاموں کو بڑا اور ناقابل قبول قرار دیتے ہیں اقتدار میں آ کر انہوں نے وہی سب کچھ نہ صرف برضا و رغبت کیا بلکہ اس کی وکالت بھی کرتے پائے گئے، ان کے اس طرز عمل پر جب شدید تنقید ہوئی تو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر خود ’’یوٹرن‘‘ کو بھی کامیاب سیاست کے لیے امر لازم اور عین کار ثواب قرار دے دیا، یوں وزیر اعظم عمران خاں تو ’’یوٹرن‘‘ کے معاملہ میں ایک طرح سے ’’اقراری مجرم‘‘ ہیں تاہم موجودہ حزب اختلاف کی بڑی یا قابل ذکر سیاسی جماعتوں کے ماضی اور حال کے طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ باور کرنے میں کوئی امر مانع نہیں یہ سب بھی ’’یوٹرن‘‘ کے مرض میں مبتلا ہیں، گزشتہ نصف صدی کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ہی وطن عزیز میں ایوان اقتدار میں باریاں لیتی رہیں ۔ مگر 2018ء کے عام انتخابات میں اس ایسٹبلشمنٹ نے جب ان دونوں کو ناپسندیدہ قرار دے کے اپنا دست شفقت ایک تیسری جماعت تحریک انصاف، پر رکھ دیا اور کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جمع کر کے جناب عمران خاں کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھا دیا تو یہ ان دونوں کے لیے ناقابل برداشت قرار پایا اور ’عوام کے حق حاکمیت‘ اور ’ووٹ کی عزت‘ کے مروڑ ان کے پیٹ میں شدت سے اٹھنے لگے ہیں چنانچہ کل تک ایک دوسرے کو سر عام لٹکانے، گلے میں کپڑا ڈال کر سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے کے دعوے کرنے والے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے قائدین آج ’’پی ڈی ایم‘‘ کے پلیٹ فارم پر مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں شیر و شکر ہو چکے ہیں۔اس نئے سیاسی اتحاد میں احتجاجی جلسوں اور تحریک جمہوریت میں عمران خاں کے ساتھ ساتھ فوجی اسٹیبلشمنٹ، اتحاد کے قائدین خصوصاً میاں نواز شریف اور ان کی دختر نیک اختر محترمہ مریم نواز کا سب سے اہم ہدف رہی ہے اور انہوں نے ملکی تاریخ میں شاید پہلی بار ماضی کی تمام روایات کو فراموش کرتے ہوئے براہ راست مسلح افواج کے سربراہ اور دیگر اہم شخصیات کو نام لے کر ہدف ملامت بنایا ہے، دلچسپ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ ابھی چند ماہ قبل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نے فوج کے، اسی سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹ بھی دیا، شاید اس وقت تک انہیں یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ جناب عمران خاں کو وزیر اعظم بنانے میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار رہا ہے حالانکہ وہ تو گزشتہ دو برس سے عمران خاں کو ’’سلیکٹڈ‘‘ ہونے کا طعنہ دے رہے تھے اور سلیکٹرز کی سلیکشن پر اپنی ناراضگی کا اظہار اسمبلیوں کے اندر اور باہر برملا کر رہے تھے۔شدید کشیدگی کی اس فضا میں محترمہ مریم نواز نے عمران خاں کے تمام ’’یوٹرنز‘‘ سے بڑا ’’یوٹرن‘‘ لیتے ہوئے اچانک فوج سے بات چیت کے لیے تیار ہونے کا اعلان کر دیا ہے تاہم اس کے لیے شرط یہ رکھی ہے کہ پہلے تحریک انصاف کی جعلی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’’بی بی سی‘‘ سے اپنے طویل تازہ انٹرویو میں محترمہ نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے بات چیت کے لیے میرے قریبی ساتھیوں سے رابطے کئے ہیں مگر مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، فوج ہمارا ادارہ ہے، ہم ضرور بات کریں گے لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جو آئین نے واضح کر دیا ہے اس میں رہ کر بات ہو گی اور وہ بات اب عوام کے سامنے ہو گی چھپ چھپا کر نہیں، انہوں نے کہا کہ وہ ادارے کی مخالف نہیں مگر سمجھتی ہیں کہ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو اس حکومت کو گھر جانا ہو گا۔محترمہ مریم نواز اپنی پارٹی کی نائب صدر ہیں، ان سے سینئر کئی نائب صدور پارٹی میں موجود ہیں مگر ہمارے یہاں کی سیاست کے وراثتی پس منظر میں وہ چونکہ میاں نواز شریف کی صاحبزادی ہیں، اس لیے انہیں پارٹی امور میں کلیدی حیثیت حاصل ہے، اس حیثیت میں آج کل وہ پارٹی کی قیادت کرتی دکھائی دیتی ہیں اور جیل میں موجود پارٹی کے صدر اور محترمہ کے چچا میاں شہباز شریف، جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں، مگر فوج سے کشیدگی اور مذاکرات پر آمادگی کی ان تمام پالیسیوں میں ان کا کوئی کردار کہیں دکھائی نہیں دیتا، ملک کے اندر محترمہ مریم نواز اور ملک سے باہر بیٹھ کر میاں نواز شریف پارٹی کی تمام پالیسیاں بنانے اور بگاڑنے کے ذمہ دار ہیں محترمہ کے تازہ موقف کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ محترمہ نے ایک ہی سانس میں آئین کے دائرہ کار میں رہ کر فوج سے بات چیت کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے اور اس سانس میں مذاکرات کی پیشگی شرط کے طور پر فوج سے عمران خاں کی حکومت کو گھر بھیجنے کا مطالبہ بھی کیا ہے… سوال یہ ہے کہ آئین کی وہ کون سی دفعات ہیں جن کے تحت وہ فوج سے عمران خاں حکومت کو گھر بھیجنے کا مطالبہ کر رہی ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر فوج ان کے مطالبہ پر ایسا کوئی اقدام بالفرض محال کرتی بھی ہے تو محترمہ اور ان کے والد محترم کے ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرہ کا کیا بنے گا؟ ایسی صورت میں فرض کیجئے اگر عمران خاں یہی نعرہ لگاتے ہوئے احتجاجی سیاست کے میدان میں کود پڑے تو کیا محترمہ اور ان کی جماعت ان کا ساتھ دے گی؟محترمہ نے اپنے انٹرویو میں دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا ہے کہ فوج سے بات اب عوام کے سامنے ہو گی، چھپ چھپا کر نہیں ہو گی۔ تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ابھی کچھ روز پیشتر محترمہ اور ان کے والد محترم کے ترجمان، سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے آرمی چیف سے جو ملاقاتیں کیں، انہیں عوام سے خفیہ کیوں رکھا گیا اور ان سے قبل محترمہ کے چچا اور پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف فوجی جرنیلوں سے تنہائی میں جو ملاقاتیں کرتے اور معاملات طے کرتے رہتے ان کی حیثیت اور تفصیل کیا ہے؟ یہاں یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ فوج سے بات عوام کے سامنے کرنے کی جو شرط محترمہ نے پیش کی ہے اس کی عملی صورت کیا یہ ہو گی کہ جلسہ عام میں اسٹیج پر ایک جانب محترمہ تشریف فرما ہوں گی اور دوسری جانب فوجی قیادت اور یوں وہ جو معاملات طے کریں گی عوام براہ راست انہیں دیکھ کر حقائق سے آگاہ ہو سکیں گے یا اس کی کوئی دوسری صورت محترمہ کے ذہن رسا میں موجود ہے…؟اسی انٹرویو میں جب محترمہ سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ موجودہ حکومت سے بھی بات چیت پر تیار ہیں تو انہوں نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ اب عوام سے ہو گا اور ہو گا اور اتنا اچھا ہو رہا ہے کہ جو بھی فورسز ہیں اور جعلی حکومت، وہ گھبرائے ہوئے ہیں۔ یہ عجیب سیاسی حکمت عملی اور ووٹ کو عزت دینے کا عملی اظہار ہے کہ محترمہ فوج، جس کو وہ تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتی رہی ہیں، سے تو مذاکرات پر آمادہ ہیں مگر اپنے سیاسی حریف سے بات چیت پر تیار نہیں اور انہیں اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ اس طرز عمل کے نتیجے میں پوری جمہوریت اور سیاست کی بساط بھی لپیٹی جا سکتی ہے محترمہ اور ان کے ساتھیوں کا رویہ واضح کر رہا ہے کہ انہیں ملکی سیاست کے استحکام سے دلچسپی ہے نہ جمہوریت کے تسلسل سے، انہیں محض اپنے اقتدار کی فکر ہے، فوج، عدلیہ اور ملک کے دوسرے تمام ادارے اگر اس کام میں ان کے ممدو معاون ہوں تو سب اچھا ہے اور اگر کسی وقت ان کا فیصلہ اس سے مختلف ہو تو وہ سب لائق ملامت ہیں گویا معاملہ کی عملی صورت شاعر کی زباں میں یوں ہے کہ :
؎ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی