جب گھڑے چکنے ہو جائیں تو پانی کب ٹھیرتا ہے

260

امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے کہا ہے کہ ’’قوم کی تقدیر بدلنے کے دعویدار وزیراعظم ڈھائی سال میں اپنی تقریر نہیں بدل سکے۔ وزیراعظم روز کہتے ہیں نہیں چھوڑوں گا لیکن پکڑتے ان کو بھی نہیں جو ان کے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں اب فرما رہے ہیں کہ اگلے ڈھائی سال ترقی کے ہیں حالانکہ گزشتہ ڈھائی سال میں بھی وہی وزیراعظم تھے اس عرصے میں مہنگائی اور بے روزگاری قابو سے باہر ہو گئی، بدامنی نے ہر طرف ڈیرے ڈال لیے اور قوم مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کی کوئی ایک کرن نہیں ڈھونڈ سکی‘‘۔ امیر جماعت اسلامی بھی درست ہی فرما رہے ہیں۔ بے شک وزیر اعظم پاکستان مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند نہیں باندھ سکے، اس میں بھی کوئی جھوٹ نہیں کہ وہ چوروں کو نہیں پکڑ سکے اور بلاشبہ وہ کرپشن پر قابو پانے میں بھی بری طرح ناکام ہیں لیکن یہ بات تو امیر جماعت کو ماننا پڑی گی کہ مہنگائی پر قابو پانے کا عزم، چوروں کو پسِ دیوارزنداں ڈالنے کے ارادے اور کرپشن کو ختم کرنے کا خیال بہر حال ان کے دل سے کوئی نہیں نکال سکا۔ وہ اپنے وعدوں پر اسی طرح ڈٹے ہوئے ہیں جیسے الیکشن سے قبل تھے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے وہ ہر روز کابینہ کا اجلاس طلب کرتے ہیں، گھنٹوں اس پر غور فرمایا جاتا ہے اور کئی بڑے بڑے فیصلے کیے جاتے ہیں لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ ہر اجلاس اور اس میں کیے گئے ہر فیصلے کے بعد پاکستان کے سارے تاجر اگلے ہی دن ان کے سارے فیصلوں پر پانی پھیرتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیتے ہیں۔ وہ چوروں کو پکڑ کر جیل میں ڈلوا دیتے ہیں لیکن یا تو عدالتیں ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتیں ہیں یا خود ان کے شوکت خانم کے ڈاکٹر چوروں کی بیماری کو درست قرار دیکر ان کے باہر جانے کی راہیں ہموار کر دیتے ہیں۔ رہے خود ان کے ارد گرد بیٹھے ڈاکو تو آخر ان کو بھی مہنگائی اور کرپشن ختم کرنے کے لیے پورے ملک کے دورے، جلسے، جلوس اور ریلیاں نکال نے کے لیے کبھی ہوائی جہاز، کبھی ہیلی کاپٹر اور کبھی دھن دولت کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے۔ اب یہ سب ذرائع اگر ان چوروں کے پاس ہوں جو خود ان کے اگرد گرد جمع ہیں تو کیا وہ ان کو جیلوں میں ڈال کر اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ لیں۔ پھر وزیر اعظم صاحب یہ ماننے کے لیے کب تیار ہیں کہ ملک میں واقعی مہنگائی ہے۔ ان کا تو یہ فرمانا ہے کہ یہ سب اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے۔
امیر جماعت کا یہ فرمانا کہ وزیر اعظم کی ساکھ اس لیے خراب ہوئی کہ وہ ہر بار اپنے قول سے پھر جاتے ہیں۔ امیر جماعت غلط فہمی کا شکار ہیں کیونکہ وزیر اعظم الیکشن سے قبل جو تقریر فرمایا کرتے تھے وہی تقریر آج بھی دہراتے چلے آ رہے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ اپنے قول کی پکے ہیں اور اپنے منہ سے نکلی بات سے پھر جانے کے لیے قطعاً تیار نہیں اس لیے امیر جماعت کو اپنے بیان سے رجوع کرنا چاہیے رہی یہ بات کہ خان صاحب اپنی باتوں پر عمل کیوں نہیں کرا سکے تو اس کا جواب تو انتظامیہ سے طلب کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم ہر روز کابینہ کا اجلاس بلاتے ہیں اور مہنگائی کم کرنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں۔ ملک کا ایک حاکم اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔
امیر جماعت یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’وزیر اعظم مہنگائی کو مصنوعی کہتے ہیں، اگر یہ سچ ہے تو پھر ان کی حکومت بھی مصنوعی ہے‘‘۔ پھر اسی تسلسل میں ان کا یہ فرمانا بھی ہے کہ ’’ہم مہنگائی کے خلاف میدان میں اترے ہیں‘‘۔ اب اگر مہنگائی اصلی کے بجائے مصنوعی یعنی دھوکے کی ٹٹی ہے تو دھوکے کے پیچھے بھاگنے پر مزید دھوکا ہی ملے گا۔ لہٰذا اس کے خلاف آواز اٹھا کر وقت اور پیسے کے زیاں سے گریز کیا جانا ہی بہتر ہے۔ اگر تعاقب ہی کرنا مقصود ہے تو کسی اصلی چیز کا کیا جانا چاہیے۔ ویسے اگر دور ’’عمرانی‘‘ کی مہنگائی کو مصنوعات میں شمار کر لیا جائے تو کیا یہ ایک عظیم کارنامہ نہیں ہوگا اور کیا مہنگائی کا ’’مصنوعی‘‘ ہونا عمرانی دور حکومت کی ایک منفرد ایجاد شمار نہیں کی جائی گی۔ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں اب تک ملک میں جتنی بار بھی مہنگائی آئی وہ ’’قدرتی‘‘ طور پر زمین سے از خود ہی پیدا ہوتی رہی لیکن 72 برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اسے مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ جب مہنگائی کو مصنوعی طور پر پیدا کیا جا سکتا ہے تو اسے تلف بھی تو کیا جا سکتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن ختم کرنے میں کامیاب ہو یا نہ ہو مہنگائی کا آکشن کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔
جن حکمرانوں کی نظر ملک میں ہر جانب ’’سب اچھا‘‘ دیکھ دیکھ کر ذکی الحس ہو چکی ہو تو کسی کا توجہ دلانا ان کو گراں نہیں گزرے گا تو کیا گزرے گا اس لیے خون اور دل جلانے کے بجائے بھنگ کا ایک گلاس چڑھا لیا جائے تو سارے اعصاب نہایت پر سکون ہو جائیں گے۔