جب بھی کراچی سے باہر جانا ہوا اور پنجاب یا خیبر کے مختلف شہروں میں گھومنا پھرنا ہوا تو کراچی کا سوچ کر دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی ہے۔ کچرے اور غلاظت سے اَٹا پڑا کراچی شہر رہنے کے قابل تک نہیں رہا۔ پوش علاقے تک محفوظ نہیں رہے۔ کراچی کی پچھلی بارشوں میں سرجانی اور ڈیفنس کے علاقے ایک ہی منظر پیش کر رہے تھے۔
یقینا ملک کے دیگر تمام بڑے شہر کراچی کے مقابلے میں بہت زیادہ اچھی حالت میں موجود ہیں۔ وہ شہر اگرچہ بہت زیادہ کما کر نہیں دیتے لیکن اُن کا انفرا اسٹریکچر کراچی کی طرح کچرا نہیں ہے۔ کراچی میں اس وقت حالت یہ ہے کہ بارشوں کے بعد تقریباً پورے شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ جگہ جگہ اتنے بڑے بڑے کھڈے ہیں کہ ہر کھڈے کے بعد آپ کے منہ سے حکمرانوں کے لیے تعریفی کلمات ضرور نکلتے ہیں۔ اب ہوگا کیا؟ ہوگا یہ کہ الیکشن سے قبل ان سڑکوں کی استرکاری ہوگی، دو چار نالوں کی صفائی ہوگی اور مزید پانچ سال کے لیے اس عوام کو بے وقوف بنادیا جائے گا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بن بھی جائیں گے۔
کراچی کے بڑے مسئلوں میں اس وقت جو مسئلہ عذابِ جان بنا ہوا ہے، وہ کچرے کا ہے۔ اس شہر کو کچرے نے گہنا دیا ہے۔ گندگی، بیماریاں، تعفن اس شہر کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ کراچی کے کچرے کی ایک کہانی ہمارے دوست حارث عالم نے سنائی ہے۔ حارث عالم نے اس حوالے سے چند معروضات پیش کیں اور اس مسئلے کی وضاحت کی، لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک مخلص اور قابل افراد زمامِ کار نہیں سنبھالتے، یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے۔ حارث عالم بتارہے تھے کہ کراچی کی صفائی کے حوالے سے یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ کچرا اٹھانا اور پھر اسے محفوظ مقام پر ٹھکانے لگانا ہے، اس سلسلے میں بہت سے منصوبے زیر غور رہے مگر آج تک سنجیدگی سے کسی مسئلے پر غور نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کچرا اُٹھنے میں دیر کہاں ہوتی ہے؟
ٹوٹل کچرا روزانہ ساڑھے چودہ ہزار ٹن بنتا ہے جس میں جو اُٹھتا ہے وہ آٹھ سے دس ہزار ٹن کے قریب ہوتا ہے، باقی جو ساڑھے چار ہزار ٹن بچتا ہے وہ چار سے پانچ ہزار ٹن روزانہ ندی نالوں میں پھینکا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نالے بھرے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی شہر میں پندرہ سے بیس لاکھ ٹن کچرا پڑا ہے۔ کچرا اُٹھانے کا کام تین ڈسٹرکٹ میں تقسیم ہے۔ ڈی ایم سیز اور کے ایم سیز کی جانب سے کراچی کی دونوں لینڈ فل سائٹ ’جام چاکرو‘ اور ’گوند پاس لینڈ‘ پر کچرا باقاعدگی سے اور مکمل نہیں پہنچ پاتا، اگر کنٹونمنٹ بورڈ اور تمام سیوک ایجنسیاں باقاعدگی سے کچرا لینڈ پر پہنچائیں تو روزانہ پندرہ ہزار ٹن کے قریب کچرا لینڈ فل سائٹ منتقل ہوگا۔
شہر بھر میں روزانہ کی بنیاد پر جمع ہونے والے کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ذمے داری کچھ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ جبکہ باقی ڈی ایم سیز کنٹونمنٹ بورڈکی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ ضلع وسطی اور ضلع کورنگی کے علاوہ کراچی کے چار اضلاع سے کچرا اُٹھانے کی ذمے داری سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی ہے۔
کچرے کا تیسرا حصہ چائینز کمپنیاں اُٹھاتی ہیں، جنہیں کراچی کے تین ڈسٹرکٹ دیے گئے ہیں، ان چائینز کمپنیوں کو اس کے کچرا اُٹھانے کی قیمت جہاں آپ کچرا پھینکتے ہیں وہاں سے ساڑھے چار روپے فی کلو دیا جاتا ہے، شہر کے تمام اضلاع سے یومیہ آٹھ سے دس ہزار ٹن کچرا ’جام چاکرو‘ اور ویندر کی لینڈ فل سائٹ پر جو کچرا پھینکنے کی مخصوص جگہ ہے تک پہنچایا جاتا ہے۔
اب ہم آتے ہیں کچرا اُٹھانے کی طر ف کراچی میں موجود تقریباً تیس ہزار ٹن کچراُ ٹھانے کے لیے ایک ہزار ڈمپر روزانہ چاہیے اور اس عمل کو بھی مکمل ہونے تک تین ماہ لگ جائیں گے، کیوںکہ اگر ہم بیس لاکھ ٹن کچرے میں سے اگر روزانہ دس ہزار ٹن کچرا بھی اُٹھائیں تو اسے مکمل صاف ہونے میں تین ماہ درکار ہوںگے۔
کروڑوں کی آبادی والا شہر اب تک تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم نظر آتا ہے۔ آج کے اس جدید دور میں جہاں دنیا کچرے سے بجلی بنا رہی ہے اور ہم اس کچرے کی بُو کھا رہے ہیں اور ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں خصوصاً کراچی کی نمائندہ جماعتیں اس پر اپنی سیاست کو چمکا رہی ہیں، حالانکہ کچرے سے بھلا کیا چمکتا ہے؟
عالمی تحقیقاتی اداروں کے مطابق کراچی کسی بھی حال میں اب ان شہروں میں سے نہیں رہا کہ جو کسی مہذب انسان کے رہنے کے قابل ہو، ایک عالمی ادارے اکنامک انٹیلی جنس یونٹ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں یہ کہا ہے کہ ہم نے ایک سو چالیس ممالک کا سروے کیا ہے ان میں کراچی کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے مگر جو لوگ کراچی میں رہنے پر مجبور ہیں، وہ اس گندگی کے ڈھیر اور سیوریج زدہ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک نے اس کچرے سے بجلی کو پیدا کرکے دکھا دیا ہے جس پر ہم لوگوں کے جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے کچرے سے 250میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس پر صرف سنجیدہ رویوں کی ضرورت ہے، آج اسی کچرے سے سنگاپور سمیت یورپین ممالک میں بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
کراچی جیسے شہر میں ایم کیو ایم جیسی طاقت ور تنظیم نے راج کیا۔ وہ چاہتی تو اس شہر کو دنیا کا بہترین شہر بناسکتی تھی۔ لیکن اب تک اُن کے ہاتھوں اس شہر کا حشر نشر تو ہوا ہے، کوئی خیر اس شہر نے نہیں پایا۔ نوجوان رُل گئے۔ سرکاری اسکولوں کا حال یہ ہے کہ کوئی بھی معمولی کمانے والا بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں بھیجنے کا روادار نہیں۔ جامعات کا حال یہ ہے کہ کلاسیں صرف طلبہ کی وجہ سے آباد ہیں، لیکن کلاسوں کے سوا کھنڈرات اور جنگلی جھاڑیوں سے سجی جامعات کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ اگر کراچی کے تعلیمی اداروں کا حال جاننا ہو تو جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب، جامعہ پشاور اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا جائزہ لے لیجیے۔ سارا کچا چٹھا کھل جائے گا۔ غرض یہ کہ اس شہر کے کسی بھی شعبے کو اُٹھالیں وہاں آپ کو عجیب ویرانی اور تباہی وبربادی نظر آئی گی۔ کچرے کو ہی دیکھ لیجیے کہ روزانہ اس شہر میں جتنا کچرا پیدا ہوتا ہے، اس کا تقریباً چار ہزار ٹن تو اُٹھتا ہی نہیں ہے۔ اب بندہ آگے کیا کہے۔ سو چپ ہی رہے تو اچھا ہے۔