’’یرغمال اقوام متحدہ‘‘

235

میں: میرے ذہن میں ایک سوال بڑے عرصے سے گھوم رہا ہے۔
وہ: کہو، شاید آپس میں گفتگو سے کوئی حل نکل آئے۔
میں: ویسے حل نکلنا تو مشکل ہے کیوں کہ میں جس ادارے کے بارے میں آج تم سے بات کرنا چاہتا ہوں، اس نے اپنے قیام سے لیکر آج تک شاید ہی کوئی مسئلہ حل کیا ہو۔
وہ: میں سمجھ گیا تم اقوام متحدہ کی بات کررہے ہو، لیکن تم یہ تو دیکھو اس کو بنانے کا مقصد تو بخوبی پورا ہورہا ہے۔
میں: عجیب بات کررہے ہو، برسوں سے نجانے کتنے مسئلے حل طلب ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ اقوام متحدہ کو بنانے کا مقصد پورا ہورہا ہے!
وہ: کون سا مسئلہ بھائی جان، کشمیر کا، فلسطین کا، عراق اور شام کا، دنیا سے غربت کے خاتمے کا، عالمی امن و سلامتی کا، انسانی حقوق کا، ترقی پزیر ممالک کو ترقی یافتہ بنانے کا… انہیں مسئلوں کی بات کررہے ہونا؟
میں: ہاں یہی سارے مسئلے، جن کا حل ہونا عالمی وعلاقائی ترقی اور امن کے لیے بہت ضروری ہے۔
وہ: مجھے بتائو کہ اقوام متحدہ میں کسی بھی مسئلے کے حل یا کوئی اقدام کرنے کے لیے کیا چیز درکار ہوتی ہے۔
میں: بس ایک متفقہ قرارداد ہی کافی ہے۔
وہ: اگر پانچ بڑوں یعنی امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین میں سے کوئی بھی ایک اسے ویٹو نہ کردے اور پھر کسی ملک کی جارحیت کی مذمت اور مظلوم کی دار درسی پر مبنی وہ قرارداد ایک دستاویز کی شکل میں ہمیشہ کے لیے اقوام متحدہ کی فائل کا حصہ بن جاتی ہے۔
میں: کیا فائدہ ایسی تنظیم کا، یہ تو سراسر زیادتی ہے؟
وہ: اور زیادتی ہمیشہ وہی کرتا ہے جو زورآور ہوتا ہے، جس کی اجارہ داری ہوتی ہے۔ اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ امریکا نے اس تنظیم کے قیام سے لے کر گزشتہ سال تک 83قراردادیں ویٹو کی ہیں جن میں سے تقریباً نصف وہ ہیں جو اس کے لے پالک بیٹے اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کی مذمت میں پیش کی گئی تھیں۔ روس (موجودہ اور سابقہ) اب تک 141، برطانیہ 32، فرانس 18 اور چین 14 بار مختلف قرادادوںکو ویٹو کرچکا ہے۔
میں: مذمت یعنی زبانی سرزنش بھی نہیں کرنے دیتے، جبکہ اکثریت اقوام قرارداد کے حق میں ووٹ دیتی ہیں؟
وہ: جی ہاں میرے دوست بالکل ایسا ہی ہے، اگر غریب فلسطینیوں یا بے گناہ عراقیوں پر تھوڑی بہت بمباری ہوگئی اور سو پچاس بچے، عورتیں ومرد ہلاک ہوگئے تو زبانی مذمت کردیتے ہیں۔ بری بات ہے مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، کیا خیال ہے۔ مگر امریکا اور ان کے ہم نوا یہ مذمت بھی نہیں کرنے دیتے۔
میں: یعنی زبردست مارے اور رونے نہ دے۔ یہ کیسی اقوام متحدہ ہے جو دنیا کے ان پانچ بڑے ساہوکاروں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے جو اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر باقی ساری دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچا رہے ہیں۔ اسے اقوم متحدہ نہیں ’’یرغمال اقوام متحدہ‘‘ کہنا چاہیے۔
وہ: یرغمال نہیں، یرغمال کو تو یہ آس ہوتی ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے تاوان دے کر چھڑا لیا جائے گا، چوں کہ یہ ممالک اس تنظیم کے سب بڑے Stack Holder یعنی سب سے زیادہ فنڈ دینے والے ہیں اس لیے اصل میں یہ ادارہ تو اِن چند ملکوں کی ملکیت ہے اور بقیہ تمام ملک ان کے غلام۔
میں: مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان پانچ کے علاوہ باقی 190 کے قریب رکن ملک کیا کرتے ہیں؟
وہ: جو ایک غلام کو اپنے آقا کے حضور کرنا چاہیے، یعنی کورنش بجالانا، بس اتنا ضرور ہے کہ باقی تمام ملکوں کو سال میں ایک بار بھرے مجمع میں اپنی بات کہنے کا موقع دیا جاتا ہے آخر جدید اور ترقی یافتہ دنیا کا سب بڑا اور مہذب ادارہ ہے اور اس نے غلاموں کے لیے اپنے وضع کردہ اصولوں میں اتنی ترمیم تو کی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سال میں ایک بار، باری باری تقریر کرتے ہیں، کیوں کہ سلامتی کونسل میں تو ان کی شنوائی کبھی ہوگی نہیں، یہ بے چارے پرجوش اور جذبات سے بھرپور تقاریر کرکے اپنی اپنی بھڑاس جنرل اسمبلی میں نکال لیتے ہیں۔ پھر اس ملک کے ذرائع ابلاغ کئی کئی دنوں تک اپنے صدر یا وزیراعظم کی تعریف کرتے نہیں تھکتے، بھئی واہ کیا تقریر کی، ہلا کے رکھ دیا، خوشی سے سرشار عوام چوراہوں پر بھنگڑے ڈالتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور اسمارٹ نیس کی بلائیں لی جاتی ہیں۔
میں: لیکن تم نے گفتگو کے آغاز میں کہا تھا کہ اقوام متحدہ کو بنانے کا مقصد تو بخوبی پورا ہورہا ہے، یہ بات تم نے کس بنیاد پر کہی تھی؟
وہ: میں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ پڑھی تھی، جس میں لکھا تھا کہ ویٹو پاور انسانی حقوق کے تحفظ کے بجائے کمزور اور چھوٹے ملکوں کے لیے ایک خطرہ بن گیا ہے۔ ادارے نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ کسی بھی ملک کی جارحیت کے دوران ہونے والے قتل عام اور نسل کشی جیسے ظلم کے بعد جارح ملک کے خلاف تادیبی کارروائی کی قرارداد کے معاملے میں اقوام متحدہ کے پانچوں مستقل ارکان کو اپنی ویٹو پاور سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔
میں: بات تو بالکل درست اور مبنی بر انصاف ہے۔ اقوام متحدہ کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ تمام دنیا کی اقوام مل کر انسانی حقوق کے تحفظ اور امن وسلامتی کے لیے کام کریں گے۔
وہ: مگر یہاں معاملہ انسانی حقوق اور امن وسلامتی کا نہیں، بلکہ چند بڑوں کی مسلسل معاشی ترقی اور اجارہ داری کا ہے۔ پانچوں رکن ملکوں کے نزدیک انسانی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ان کو صرف اپنے سیاسی اور geopolitical interest سے غرض ہے۔
میں: یہ geopolitical interest کیا ہوتا ہے؟
وہ: کسی ملک یا خطے میں اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے دخل اندازی کرنا اور بین الاقوامی سیاست میں اپنا اثرو رسوخ بڑھاتے ہوئے معاشی فائدے حاصل کرنا۔ اور یہ کام ظاہر ہے طاقت ور ملک ہی کرسکتا ہے، جس میں گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکا، روس اور چین سرفہرست ہیں۔
میں: برطانیہ اور فرانس؟
وہ: یہ دونوں اب امریکا کے Tommy کا کردار ادا کرتے ہیں ویسے بھی نوآبادیاتی دور میں یہ اپنی اپنی باریاں کھیل چکے ہیں، جدید ٹیکنالوجی تو ساری دنیا کو بیچتے ہیں ساتھ ہی یہ پانچوں ملک اپنے اسلحے کی فروخت کے لیے نئی منڈیاں پیدا کرتے ہیں۔ اگر منڈیوں کے لگنے میں کہیں تعطل آجائے تو یہ سب مل کر افغانستان، عراق، شام، بوسنیا، مصر، الجزائر، پاکستان، آرمینیا، لیبیا، یمن اور ان جیسی کئی اور منڈیاں بآسانی بنا لیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صرف ان ملکوں کو حکومتی سطح پر اسلحہ اور گولہ بارود نہیں بیچتے بلکہ وہاں برسر پیکار باغی گروہوں اور ملیشیا کے ساتھ بھی پورا تعاون کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ یہ سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اقوام متحدہ صرف ان ہی کے مفادات کاتحفظ کرتی ہے بھلے وہ مفاد بھارت اور اسرائیل جیسے فاشسٹ ملکوں سے ہی وابستہ کیوں نہ ہو۔