اور اس کو حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسی چیزیں اپنے اندر ضرور پیدا کر لیں گے جو چاہے ہمیں اس کامل معنی کا پورا حامل نہ بنائیں لیکن اس سے سچی نسبت رکھنے والا بندہ ضرور بنا دیں گی۔ چیزوں کو ان کے آئڈیل دروبست کے ساتھ محفوظ نہ رکھنے سے ان چیزوں کی ناقدری ہوتی ہے، اور اگر چیزوں کی مثالی تعریف سامنے ہو تو ان کے حصول کی سنجیدہ کوشش کرنے والا اپنے حاصلات پر گھمنڈ نہیں کرتا۔ یہ آئڈیل اسے باور کرواتا رہتا ہے کہ تم راستے پر تو ہو لیکن منزل سے ابھی دور ہو۔ تو بھائی، صبر کی مثالی تعریف یہ ہے کہ جو از روئے حال منافیِ شکر نہ ہو۔ اس کے لیے نفس میں بندگی کے داعیے کا غلبہ ضروری ہے۔ یعنی نفس میں بندگی کی حالت غالب آئے گی تو تعلق مع اللہ سے نسبت رکھنے والے احوال نصیب ہوں گے۔ آدمی بندگی کی قوت سے نفس پر گرفت رکھنے کی یہ توفیق اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ سچ پر مضبوطی کے ساتھ قائم نہ ہو جائے۔ سچ کا اصل کردار تو یہ ہے کہ ماسوی اللہ سے مغلوب نہیں ہونے دیتا اور اللہ کی طرف یکسو رکھتا ہے۔ لیکن ہم اگر سچ کا مطلب صرف سچ بولنا رکھیں تو بھی اس عمل پر استقامت سے نفس پر اصلاحی قدرت حاصل ہوسکتی ہے۔ تو سب سے پہلے یہ عزم کر لینا چاہیے کہ میری زبان کو مرتے دم تک جھوٹ کے ذائقے سے محفوظ رہنا ہے اور میرے دل کو دروغ گوئی کے ارادے سے بھی پاک رہنا ہے۔ سچ بولنے کی عادت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ ہمارا بولا ہوا ایک ایک لفظ ہماری تعمیر میں حصہ لیتا ہے۔ سچ اگر تکلف سے اور خود پر جبر کر کے بھی بولا جائے تو بھی اس کی تاثیر سے نفس کی امّارگی، دنیا کی محبت اور ریا کے خاتمے کی راہ کھل جاتی ہے۔ سچ بولنا ایک طرح سے اللہ کی حضوری میں رکھنے والا فعل ہے۔ سچ کا صبر سے تعلق یہ ہے کہ صبر اللہ سے تعلق میں سچا بناتا ہے، اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ یعنی صبر کہتا ہے کہ دنیا چاہے جہنم بن جائے، یہ مجھے آپ کے تعلق کی جنت سے نہیں نکال سکتی۔ اور سچ کہتا ہے کہ دنیا خواہ کتنی پرکشش ہو جائے، یہ اللہ کی فرمان برداری کے جذبے کو سرد نہیں کر سکتی۔ دونوں کا حاصل یہ
ہے کہ میرا اور میری دنیا کا تعلق اللہ کے ساتھ میرے تعلق کے ماتحت رہے۔ صبر برے حالات میں بھی اللہ سے متعلق رکھتا ہے اور سچ دنیا کی چمک دمک اور فائدے نقصان کو اللہ کی فرمان برداری پر اثرانداز نہیں ہونے دیتا۔ ان دونوں اوصاف کا مشترک مادہ وفاداری ہے، اللہ سے وفاداری، اُس کے احکام سے وفاداری، اس کے رسول سے وفاداری وغیرہ۔ افسوس اس وفاداری کا ہی ہم میں تقریباً فقدان ہے۔ ہم اللہ کے لیے تکلیف اٹھانے کے تصور سے بھی ڈرنے کے عادی ہوگئے ہیں اور یہ سوچ ہمارے لیے ایک ناگوار سوچ بن گئی ہے کہ اللہ سے تعلق نبھانے کے لیے آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے، نقصان اٹھانے پڑتے ہیں، اپنی محبوب چیزوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اور راحتوں سے منہ پھیر کر تکلیفوں کو دعوت دینی پڑتی ہے۔ یعنی ان سب کا امکان ہے۔ یہ سارے تصورات ایمانی ذہن رکھنے والے لوگوں کے لیے بھی نامانوس بلکہ وحشت انگیز ہوچکے ہیں۔ اللہ کے لیے قربانی دینے کا تصور اتنا ڈراؤنا بن چکا ہے کہ اس سے خود کو بچانے کے لیے ایک خیالی خدا بنانے کی مہم شروع ہو چکی ہے۔ حقیقی خدا سے بچنے کی مسلسل تگ ودو کی وجہ سے ہماری زندگی اور ہماری خواہشات کے بہت ہی تھوڑے حصے پر تعلق باللہ کی روشنی پڑ رہی ہو تو پڑ رہی ہو، بیش تر حصے اس تعلق کی حرارت اور روشنی سے محروم ہیں۔ اگر ہمیں اپنے موجودہ بحران اور تنزل کا مجبوراً کوئی ایک سبب بتانا ہوتو وہ سبب یہ ہے کہ ہم اللہ کے ساتھ وفادار رہنے کی روایت، جذبے اور تخیل سے دور ہوگئے ہیں۔ ہم نے اپنے اندر مذہبیت کا ایک ایسا نظام پیدا کر لیا ہے جو اللہ کے لیے قربانی دینے کے عاجزانہ اور والہانہ جذبے سے خالی ہے۔ تو بھائی، اب ہمارے پیشِ نظر یہی مقصد ہونا چاہیے کہ کسی بھی طرح بیوفائی کے زہریلے دھویں سے باہر نکلنا ہے۔
تو جناب، صابر وہ ہے جو کسی بھی حال میں اللہ سے اپنے متشکرانہ تعلق کو مسلسل اضافے کی حالت میں برقرار رکھے، اور سچ بولنے والا بندہ وہ ہے جو دنیا کو حق پر ترجیح نہ دے اور آخرت سے غافل نہ رہے۔ ویسے ہر اچھائی میں یہ برکت ہوتی ہے کہ وہ دوسری تمام اچھائیوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اچھائی کی ایسی تاثیر کو دیکھتے ہوئے کم ازکم میں تو اپنے لیے عمل کا جو طریقہ اور مزاج تجویز کروں گا وہ یہی ہوگا کہ استغفار کرو، جو بھی خوبی اور بھلائی سامنے آئے اس سے چمٹ جاؤ اور اسے اپنے لیے سفینۂ نوح بنا لو۔ قرآن کی ہر ہدایت، رسول اللہؐ کی ہرسنت سفینۂ نوح ہے۔ امت کا زیادہ تر حصہ سیدنا نوحؑ کے بیٹے کی طرح اس مغالطے میں مبتلا ہے کہ ہم تو پہاڑ پر چڑھ جائیں گے، وہاں طوفان کہاں سے پہنچے گا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے یہ طرز ِ عمل بہت عرصے سے اختیار کر رکھا ہے کہ ہمیں، نعوذ باللہ، کتاب و سنت کی ندائے نجات سننے کی کیا ضرورت ہے، دنیا میں کامیابی کی اتنی سیڑھیاں ہیں کہ کسی بھی سیڑھی پر چڑھ جائیں گے تو ہم نجات وغیرہ سب پالیں گے۔ تو ہم نے دنیا میں کامیابی کو نجات کا متبادل بنا رکھا ہے اور دنیا کی تکلیفوں کو عذاب کا مترادف سمجھ رکھا ہے۔ یعنی دنیا پاس ہے تو ہم جنت میں ہیں اور دنیا پاس نہیں ہے تو ہم دوزخ میں ہیں۔
الحمدللہ، ہم رسول اللہؐ کے امتی ہیں۔ یہ نسبت ہماری بہت سی کمزوریوں اور نالائقیوں کو ان شاء اللہ ڈھانپ لے گی۔ مگر ہم میں بھی اتنی غیرت تو ہونی چاہیے کہ اپنا جائزہ لے سکیں کہ ہم امتی کہلانے کے مستحق بھی ہیں یا نہیں۔ تو سچی بات یہی ہے کہ ہم بھلا کہاں کے امتی، رسول اللہؐ کا پسندیدہ آدمی کہاں ہے؟ آپؐ کا پسندیدہ معاشرہ کہاں ہے؟ پسندیدہ ریاست کہاں ہے؟ یہ تو خیر سے بہت بڑے مطالبات ہیں، ہم تو روئے ارض پر اپنا ایک محلّہ بھی نہیں دکھا سکتے جسے دیکھ کر یہ کہا جا سکے کہ دیکھو، یہ ہے رسول اللہؐ کے ماننے والوں کا محلّہ۔ ارے ، حرم کے مطاف میں کھڑے ہوکر بھی یہ دعوا نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رسول اللہؐ کے ماننے والے طواف کر رہے ہیں! ایسے گہرے اور ہمہ گیر بحران کو بھی محسوس نہ کرنا پرلے درجے کی سنگ دلی اور بے حسی ہے اور اس سے نکلنے کی کوشش نہ کرنا خودکشی ہے۔ تو بھائی، میں آپ کو گواہ بنا کر عہد کرتا ہوں کہ آج سے بلکہ ابھی سے اللہ کا وفادار بندہ بننے کی ہر ممکن کوشش کروں گا اور ہمیشہ سچ بولوں گا۔