اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتی مفاداتی سیاست

327

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ فوج یا کسی ادارے کے ساتھ مذاکرات کرنااور ان سے حکومت ختم کرنے کا مطالبہ کرنا،فوج کو سیاست میں دراندازی کی دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ ملک میں سول بالادستی قائم ہونا ضروری ہے، جس کے لیے سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کرآپس میں مذاکرات کرنا ہوںگے۔ اس حکومت کو لانے میں مافیاز کا پیسہ لگا ہوا ہے، یہی مافیاز اپنی دولت بڑھانے کے لیے اب بھی حکومت میں موجود ہیں، جس کا اعتراف خودوزیراعظم کرتے ہیں۔جماعت اسلامی کے امیر کا مریم نواز کے بیان پر رد عمل جمہوریت اور اصول پر مبنی سیاست پر یقین رکھنے والے ہر فرد کی آواز ہے۔بدقسمتی سے پاکستانی سیاست تاریخی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔1954ء میں ایوب خان کی بطور وزیر دفاع تقرری اور پھر مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنایا جانا، پھر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کے بعد اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرنا… اور پھر یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ جب وزیراعظم نوازشریف اور صدر غلام اسحق خان کے درمیان سیاسی تنازع ہوا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے دونوں کے معاملات طے کرائے۔ پھر ہمارے سامنے یہ بھی تاریخ آتی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے وقت کے آرمی چیف جنرل پرویزمشرف کے ساتھ این آر او کیا۔ پھر ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ صدرآصف علی زرداری نے جنرل اشفاق پرویزکیانی سے لانگ مارچ روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا کہا۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری قومی جماعتیں اقتدار میں رہنے کے لیے تاریخی طور پر کسی بھی قسم کے اصول، قانون اور بنیادی اخلاقیات کی قائل نہیں ہیں، ایسے میں جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ نوازشریف اب کوئٹہ جلسے جیسی تقریر نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کی ڈیل ہوچکی ہے، پی ڈی ایم کے اجلاس سے پہلے مریم نواز اور بلاول زرداری کی ملاقات میں معاملات طے کرلیے گئے ہیں اور پی ڈی ایم کی قیادت کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ حافظ حسین احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ مریم نواز ووٹ کو عزت دیتے دیتے بوٹ کی عزت تک پہنچ گئی ہیں،جن کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیا گیا تھا،آج اُن سے اقتدار کی بھیک مانگنا تھوک کر چاٹنے والی بات ہوگی، فوج کو براہِ راست عمران حکومت کو ہٹانے اور انہیں اقتدار میں لانے کی بھیک عالمی نشریاتی ادارے پر مانگی گئی ہے جس کے بعد پی ڈی ایم کی قابلِ احترام قیادت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔ نوازشریف ماضی میں جنرل پرویزمشرف سے این آر او لے چکے ہیں، اور اب جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے صحت کے حوالے سے فریب کاری کے ذریعے این آر او لے کر ملک سے باہر چلے گئے، کہاں گئی ان کی اصول پرستی؟ بلاول زرداری اور مریم نواز کے ایک ہی عالمی نشریاتی ادارے کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیے گئے انٹرویوز سے لندن پلان سامنے آچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ جلسے کی تقریر سن کر ہی ہم سمجھ چکے تھے کہ نوازشریف سمیت ان کا خاندان اپنی کرپشن کی وجہ سے اسٹینڈ نہیں لے سکے گا اور بالآخر پیچھے ہٹے گا‘‘۔ اب صورتِ حال قوم کے سامنے آچکی ہے۔ حافظ حسین احمد جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل تھے اور اب استعفا دے چکے ہیں،اُن سے زیادہ اندر کی صورتِ حال کون جانتا ہوگا!، انہوں نے سب کچھ کھول کر بیان کردیا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) پُرجوش انداز میں کہہ رہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا ہونا بھی گناہ ہے اور اُس سے آزادی ضروری ہے۔ نوازشریف نے پی ڈی ایم کے کوئٹہ کے جلسے میں براہِ راست آرمی چیف جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر سنگین الزام لگائے اور تمام تر خرابیوں کی جڑ انہیں قرار دے کر 10 بار ان کا نام لیا۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ اسی اسٹیبلشمنٹ سے بار بار مخاطب ہوکر مسلم لیگ (ن) کہہ رہی ہے کہ آپ ہماری طرف متوجہ ہوں اور عمران خان سے اپنا تعلق توڑ لیں جب کہ نوازشریف اور پی ڈی ایم کو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف بیانیے پر پزیرائی اور مقبولیت ملی تھی، کیونکہ پاکستانی قوم بحیثیتِ مجموعی جمہوری اور سیاسی بیانیے کے ساتھ ہی اس ملک کو چلتا دیکھنا چاہتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہماری قومی جماعتوںکا سیاست میں کردار ہمیشہ بے اصولی پر مبنی رہا ہے، ان کی سیاست کا صرف ایک اصول ’’ذاتی مفاد‘‘ ہے اور اس کے لیے وہ ہر چیز کو دائو پر لگانے کے لیے ہر دم تیار نظر آتی ہیں، یہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کرتے اس لیے نظر نہیں آتے ہیں کہ یہ انفرادی ،گروہی اور خاندانی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں،اسی لیے آج تک یہ عوام کو کچھ ڈیلیور نہیں کرسکے اوریہاں بلا تخصیص پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)اور پی ٹی آئی تینوں ایک ہی صف میں کھڑی ملیں گی۔ ہمارے نزدیک مریم نواز کا بیانیہ نوازشریف کا بیانیہ ہی ہے، حکمتِ عملی یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سے بات بن جاتی ہے تو ٹھیک ہے، بصورتِ دیگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ نعرے جاری رہیں گے۔ یہ ہے ہماری قومی جماعتوں کی جمہوریت اور عوام کے لیے سیاست اور جدوجہد، جس نے مملکتِ خداداد پاکستان کی سیاست کو المناک صورت ِحال سے دوچار کیا ہوا ہے۔ہماری سیاست آلودہ ہوچکی ہے اور اس کی کوئی سمت نہیں ہے۔ جب سیاست دان بوالعجب ہوں تو سیاسی بوالعجبیوں کی بہتات ہوتی ہے ،جب آپ کے سیاسی نظام اور سیاست میں کوئی نظریاتی حوالہ موجود ہی نہ ہو تو پھر آپ اپنے مفادات کے گرد ہی گھوم رہے ہوتے ہیںاور اگر کوئی نظریہ ہو تو پھر اس کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور اصول کی سیاست نہ ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ، نہ سول اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی بڑی سیاسی جماعتوں کو پسند آتی ہے۔پاکستان میں برسوں سے جاری بے اصولی کی اس سیاست اور سیاست کرنے والوں نے پاکستان کو نہ صرف رسوا کیا ہے بلکہ اُن حقیقی سیاسی تحریکوں کو بھی مشکوک بنادیا ہے جو واقعی اصول اور نظریے کی سیاست کررہی ہیں۔ اگر پاکستانی سیاست اسی راستے پر گامزن رہی تو پھر اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی اسی طرح برقرار رہے گی اور اسے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں کمزور ہوتی چلی جائیں گی۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی میں حقیقی سیاسی کلچر کے فروغ کے لیے سیاسی جماعتوں مفادات سے باہر نکل کر جمہوریت کی بالادستی اور عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں اور عملی،ٹھوس اور سنجید اقدامات کریں۔