سیکولر ذہن کی شیطنت

467

ایک زمانہ تھا کہ شریر بچوں کو محبت سے شیطان کہہ دیا جاتا تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ پاکستان کے سیکولر ذہن کو غصے سے شیطان کہنا پڑتا ہے۔ یہ تبدیلی بلاسبب نہیں ہے۔ پاکستان کا سیکولر ذہن ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہماری اقدار کا باغی ہے۔ اسے ہماری ہر چیز میں عیب نظر آتا ہے اور اسے سیکولر نقطہ ٔ نظر میں ہنر کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ طاہر کامران پاکستان کے معروف سیکولر اور لبرل دانش ور ہیں۔ انہیں اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ پر حملوں میں خاص لطف محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے چند ماہ پیش تر دی نیوز کراچی میں
Sharia and its interface with Pakistan State
کے عنوان سے ایک طویل کالم لکھا تھا۔ اس کالم کے بعض مندرجات ہی آج ہمارا موضوع ہیں۔
طاہر کامران نے 3 مئی 2020ء کے کالم میں ایک بات یہ لکھی کہ پاکستان میں ہونے والے علمی کاموں یکسانیت یا یک رنگی بہت ہے۔ اس کی وجہ طاہر کامران نے یہ بیان کی کہ آپ جس کام کو اُٹھاتے ہیں اس میں اسلام نکل آتا ہے۔ اس سے علمی کاموں کا ’’تنّوع‘‘ بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ہر قوم کا ایک بنیادی عقیدہ ہوتا ہے اور یہ عقیدہ اس کی پوری زِندگی کو متاثر کرتا ہے۔ سابق سوویت یونین کا بنیادی عقیدہ سوشلزم یا کمیونزم تھا۔ چناں چہ سوویت یونین میں ہر چیز کو سوشلزم کی عینک سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کا ادب ’’کمیونسٹ‘‘ تھا۔ ان کی عمرانیات ’’کمیونسٹ‘‘ تھی۔ ان کی معاشیات ’’کمیونسٹ‘‘ تھی۔ یہاں تک کہ وہ اپنی سائنس کو کمیونسٹ سائنس یا ’’سوویت سائنس‘‘ کہا کرتے تھے۔ مگر ان کے بارے میں کسی نے نہ کہا کہ سوویت یونین کے علمی کاموں میں بڑی یکسانیت ہے۔ جس علم پر ہاتھ رکھا اس سے سوشلزم، مارکسزم یا کمیونزم نکل آتا ہے۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ سیکولر اور لبرل دنیا کا ہر علم سیکولرازم اور لبرل ازم میں ڈوبا ہوا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے آرٹس کو ’’لبرل آرٹس‘‘ کہتے ہیں مگر لبرل دُنیا کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس کے دائرے میں یکسانیت بہت ہے۔ چلو آئو اس یکسانیت کو دور کرنے اور لبرل آرٹس میں تنوع پیدا کرنے کے لیے ہم مذہبی تناظر سے تھوڑی سی مدد لیتے ہیں۔ ’’قومی ریاستوں‘‘ کا تماشا بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہر قومی ریاست اپنے ’’قومی‘‘ ہونے پر فخر کرتی ہے۔ امریکی اپنی ہر چیز میں ’’American ness‘‘ ڈھونڈتے ہیں۔ انڈیا کے لوگ اپنی ہر شے کو ’’Indian ness‘‘ میں ڈوبا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یورپ کے لوگوں کو ہر چیز میں ’’Europain ness‘‘ کو ملاحظہ کرنے کا شوق ہے۔ ان لوگوں کو کوئی نہیں کہتا کہ تمہارے تناظر میں بڑی یکسانیت ہے۔ قومی ریاست تو خیر بڑی چیز ہے۔ دُنیا کا حال یہ ہے کہ پنجابی اپنی ہر چیز میں ’’پنجابیت‘‘ تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ مہاجر اپنی ہر چیز میں ’’مہاجریت‘‘ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ سندھیوں کو اپنی ہر چیز میں ’’سندھیت‘‘ دیکھنے کی تمنا ہوتی ہے۔ مگر ان لوگوں سے کوئی نہیں کہتا کہ تم اتنے یکسانیت پسند کیوں ہو؟ تمہاری زندگی میں اتنی یکسانیت کیوں ہے لیکن سیکولر لوگوں کا جیسے ہی اسلام سے سامنا ہوتا ہے انہیں پہلا خیال یہ آتا ہے کہ اسلام نے ہماری علمی، سماجی اور ثقافتی زندگی کو یکسانیت سے بھر دیا ہے۔ یہ ہے سیکولر ذہن کی شیطنت۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا واقعتاً اسلام نے ہماری علمی زندگی کو یکسانیت سے بھر دیا ہے؟۔
مسلمانوں نے تفسیر کا غیر معمولی علم پیدا کیا ہے۔ یہ علم اصول کی سطح پر یکساں ہے۔ یعنی ہر مفسر قرآن کی تشریح کے لیے سب سے پہلے قرآن کی جانب دیکھتا ہے۔ پھر وہ احادیث مبارکہ سے مدد لیتا ہے۔ پھر وہ صحابہ کے اقوال سے رجوع کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کی نظر تابعین اور تبع تابعین کی طرف اُٹھتی ہے۔ لیکن یہ صرف اصول کا معاملہ ہے۔ اصول کے اطلاق کی سطح پر ہر تفسیر دوسری تفسیر سے مختلف ہوتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو پھر مسلمانوں کے لیے ایک ہی تفسیر کافی ہوجاتی۔ یہی معاملہ سیرت نگاری کا ہے۔ سیرت نگاروں کے علمی وسائل ایک جیسے ہیں مگر سیرت کی ہر کتاب اپنی تفہیم اپنے بیان اور اظہار کی سطح پر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس بات کو ایک اور سطح پر بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ روایتی غزل کا علامتی نظام ایک تھا۔ گُل، بلبل، پروانہ، چراغ، محفل، عاشق اور محبوب کی علامتیں ہر شاعر کے یہاں یکساں مفاہیم کی حامل تھیں مگر کیا میر کی غزل سودا کی غزل کی طرح ہے؟ کیا ذوق کی غزل اور غالب کی غزل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ زمین آسمان کا فرق ہے۔ بدقسمتی سے سیکولر ذہن علمی اعتبار سے اتنا پست ہے کہ وہ تنوع اور تضاد کے فرق سے آگاہ نہیں۔ گلاب کے پودے پر کھلنے والے پھولوں میں ’’گلاب پن‘‘ یکساں ہوتا ہے، ورنہ ہر گلاب ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن اگر گلاب کے ایک پودے پر گلاب بھی کھلنے لگے اور اس پر بھنڈی بھی نمودار ہوجائے تو یہ تنوع کی نہیں تضاد کی مثال ہوگی۔ اسلامی علوم میں اصول کی سطح پر وحدت پائی جاتی ہے اور تفہیم اور اظہار کی سطح پر کثرت یا تنوع پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس سیکولر اور لبرل علوم میں لکھنے والے کی شخصی اُپج یا انفرادیت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ مثلاً کسی ایک مغربی مفکر کے نزدیک انسان سماجی حیوان ہوتا ہے۔ دوسرے مفکر کے نزدیک وہ معاشی حیوان ہوتا ہے۔ تیسرے مفکر کے نزدیک وہ سیاسی حیوان ہوتا ہے۔ چوتھے مفکر کی نظر میں وہ صرف جبلتوں کا حامل ہوتا ہے۔
طاہر کامران کو ایک طرف تو مسلمانوں کی ایک اصول کی پاسداری بُری لگتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس سے علوم و فنون میں یکسانیت پیدا ہوتی ہے۔ دوسری جانب انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ اسلام کی کوئی ایک آواز نہیں ہے۔ اس سے ان کی یہ مراد ہے کہ کہیں اسلام حنفی ہے، کہیں شافعی ہے، کہیں مالکی ہے، کہیں حنبلی ہے، کہیں دیوبندی ہے، کہیں بریلوی ہے۔ طاہر کامران کے تناظر کو دیکھا جائے تو انہیں اسلام کے اس ’’تنوع‘‘ کی تعریف کرنی چاہیے مگر چوں کہ انہیں ہر صورت میں اسلام کی مخالفت کرنا ہے اس پر اعتراض کرنا ہے اس لیے وہ اسلام کے مذہبی تنوع پر بھی اعتراض کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اسلام کی کوئی ایک آواز نہیں ہے۔ اس کا کوئی ایک ترجمان نہیں ہے۔ طاہر کامران کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ حنفیت ہو یا شافعیت، مالکیت ہو یا حنبلیت، دیوبندیت ہو یا بریلویت سب کا سرچشمہ ایک ہی ہے۔ یعنی قرآن و سنت۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام کی آواز ایک ہی ہے۔
طاہر کامران نے اپنے کالم میں توہین رسالت کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قانون پر بھی یہ کہہ کر حملہ کیا ہے کہ یہ قانون ’’انگریز سامراج‘‘ کا بنایا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ جب تک برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی کسی ہندو کو توہین رسالت کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی مگر جب اقتدار مسلمانوں سے چھن گیا تو بعض ملعون ہندوئوں نے توہین رسالت کی جرأت کی۔ کیوں کہ اس وقت حکومت انگریزوں کے پاس تھی اس لیے توہین رسالت کی روک تھام کا قانون بھی انگریزوں نے بنایا۔ اس سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ طاہر کامران کو انگریزوں کی سامراجیت یاد بھی آئی تو توہین رسالت کے قانون کے سلسلے میں۔ ارے بھائی ہماری تو ہر چیز ہی انگریز سامراج کی عطا ہے۔ ہمارا لباس انگریزی زبان، ہمارا نظام تعلیم، ہمارا عدالتی نظام، ہماری جمہوریت، ہماری پارلیمنٹ کیا ہے جس پر انگریز سامراج کی مہر نہیں لگی مگر ہم نے آج تک کسی سیکولر یا لبرل دانش ور کو یہ کہتے نہیں سنا کہ انگریزی چوں کہ سامراج کی یاد گار ہے اس لیے اس سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ جمہوریت چوں کہ سامراج کی عطا ہے اس لیے اس سے گھن کھانی چاہیے۔ پینٹ شرٹ اور ٹائی چوں کہ سامراج کی نشانیاں ہیں اس لیے ان سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ طاہر کامران کو انگریز کی سامراجیت یاد آئی تو توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے۔ یہاں طاہر کامران کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شریعت میں توہین رسالت کے مرتکبین کی سزا ہمیشہ سے موجود ہے۔
طاہر کامران کو توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ انگریز اور ان کی سامراجیت یاد آئی بلکہ انہیں اس حوالے سے جنرل ضیا الحق اور ان کی آمریت بھی یاد آئی۔ چناں چہ انہوں نے فرمایا کہ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں توہین رسالت کے قانون کو مزید جامع بنایا گیا۔ ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر کا وتیرہ ہے کہ انہیں ملک کے اندر صرف ایک ہی آمر نظر آتا ہے جنرل ضیا الحق۔ بلاشبہ جنرل ضیا الحق فوجی آمر تھے مگر فوجی آمر تو جنرل ایوب بھی تھے۔ جنرل یحییٰ بھی تھے۔ جنرل پرویز مشرف بھی تھے۔ چناں چہ سیکولر اور لبرل لوگوں کو تمام ہی فوجی آمر یاد آنے چاہئیں مگر ان بیچاروں کی تان جنرل ضیا الحق پر ٹوٹتی ہے۔ اس کی وجہ جنرل ضیا الحق نہیں ان کی مذہبیت ہے۔ ہمارے سیکولر اور لبرل لوگوں کو جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز کی فوجی آمریت اس لیے بُری نہیں لگتی کہ یہ تینوں سیکولر تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر آمریت کے حوالے سے بھی گہرے تضاد کا شکار ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو تضاد بھی شیطان کا وصف ہے۔ شیطان ایک جانب خدا کو اپنا خالق اور مالک مانتا تھا۔ دوسری جانب وہ خدا کے سامنے اپنی رائے اپنی انا کا پرچم لے کر کھڑا ہوگیا۔ سیکولر اور لبرل عناصر فوجی آمریت کے سلسلے میں یہی کرتے ہیں۔ وہ سیکولر جرنیلوں کی آمریت کے سامنے سر جھکاتے ہیں اور مذہبی جنرل کی آمریت کو بُرا کہتے ہیں۔