ادرک کا مزا

225

وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کے احتجاجی اجتماع پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اپوزیشن کو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ عوام ان کی لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کے لیے ان کا ساتھ ہر گز نہیں دیں گے۔ خدا جانے! عمران خان کا تبصرہ سن کر ہمیں سیانوں کا یہ قول کیوں یاد آگیا کہ بندر کیا جانے ادرک کا مزا۔ اگر عمران خان کی حکومت قوم پر مہنگائی، بے روزگاری اور بے گھری کا عذاب نازل نہ کرتی تو عوام اپوزیشن کا ساتھ کبھی نہیں دیتے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حقیقی اپوزیشن بے لگام مہنگائی ہے۔ جس نے عوام کو احتجاجی جلسوں میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ عوام کے مسائل پر توجہ نہیں دیتے نہ ان کے مسائل سے آگاہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے وزیر اور مشیر جو کچھ کہہ دیں خان صاحب آنکھیں بند کر کے ان پر بھروسا کر لیتے ہیں۔ کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ عمران خان آنکھوں کا کام کانوں سے لیتے ہیں۔ جو کچھ ان کی سماعت میں انڈیل دیا جائے اسی کو سب اچھا ہے مان لیتے ہیں۔
متحدہ ڈیموکریٹک جلسوں کے بارے میں ان کے مشیر و وزیر وہی کچھ کہتے ہیں جو عمران خان سننا چاہتے ہیں۔ شنید ہے جو مشیر اور وزیر ان کی مرضی کے خلاف بولے اسے شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ ان کے اطراف کوئی ایسا شخص موجود ہی نہیں جو ان کی ناراضی کا متحمل ہو سکے۔ سبھی کو اپنی نوکری عزیز ہے۔ جنہیں اپنی نوکری عزیز ہو وہ سر جھکا کر چلتے ہیں۔ سچ ایسی دو شیزہ ہے جسے بد کرداروں سے گھن آتی ہے۔ اس کا دستِ شفقت انہیں کا مقسوم ٹھیرتا ہے جو سر اٹھا کر چلتے ہیں۔ جن کی زبانیں سچ اُگلتی ہیں۔ جن کی آنکھیں مقابل کا چہرہ پڑھ لیتی ہیں۔ اہل ِ وطن کی بد نصیبی یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان خصوصیات کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ شاید وہ اہلیت کے قائل ہی نہیں۔ تعریف جھوٹی ہو یا سچی ایسا ہتھیار ہے جس کا وار کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ کسی قوم کی سب سے بڑی بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے حکمران رائیگانی کے احساس سے عاری ہوں۔ ان کا حال و مستقبل آج سے وابستہ ہو، آنے والا کل ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان کا مقصد حیات صرف یہ ہوتا ہے کہ جو حاصل کر سکتے ہیں اسے نہ گنوائیں۔ ہر قیمت پر حاصل کر لیں کل کی کل دیکھی جائے گی۔ یوں بھی اس قبیل کے لوگ عاقبت کے قائل نہیں ہوتے۔ ان کا اول و آخر لمحہ ٔ موجود ہی ہوتا ہے۔ وہ بڑے دھڑلے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں اور جب اللہ کی پکڑ میں آتے ہیں تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسے سیاسی انتقام یا خاندانی رنجش کا نام دے کر اپنی بے گناہی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وطنِ عزیز کی خود مختاری رہن رکھی ہوئی ہے۔ حکمران درآمد ہدایات کے پابند ہوتے ہیں۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ وہ کون بد بخت ہے جس نے وطنِ عزیز کو رہن رکھ دیا ہے۔ مگر بد نصیبی یہ ہے کہ اگر کوئی سچ بولنے کی جسارت کر بیٹھے تو پھر اٹھنے قابل ہی نہیں رہتا۔ ہمارے نظام ِ عدل میں اس کا کوئی حل نہیں اور نہ ہی ایسی گنجائش ہے۔ جو اس معاملے میں از خود نوٹس لے سکیں۔ صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے ہمیں ہمہ وقت خدا کے حضور اپنی بے بسی کا اظہار کرتے رہنا چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی ایسا لمحہ آجائے جو شرف قبولیت کا حامل ہو اور وطن ِ عزیز کو حرص و ہوس کے جذام میں مبتلا سیاست کاروں سے نجات مل جائے۔
کہتے ہیں کہ امریکا میں ٹرمپ کا باب بند ہو چکا ہے۔ مگر کہنے والے یہ بھی کہ رہے ہیں کہ جوبائیڈن برائے نام صدر ہوں گے۔ ان کی صدارت ٹرمپ کو سونپے گئے منصوبے کی تکمیل سے مشروط ہو گی۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری ٹرمپ کے مزار پر کھڑی امریکا پر برس رہی ہیں۔ محترمہ کا اصرار ہے کہ امریکا پاکستان سے معافی مانگے۔ ورنہ…!! ہمیں کام کی بہت ضرورت ہے۔ سو ہم یہ کام اسی تنخواہ پر کرتے رہیں گے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے ایک ٹویٹر جاری ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جو بائیڈن کی صدارت نے آمر حکمرانوں کی نیندیں اُڑا دی ہیں۔ اور پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ پاکستانی عوام کو مہنگائی و بے روزگاری کے سونامی میں ڈبو دیا گیا۔ ممکن ہے کہ یہ ٹویٹر پڑھ کر آمر حکمرانوں نے رخت سفر باندھنا شروع کر دیا ہو۔ مگر شیریں مزاری نے رخت سفر باندھنے کے بجائے اپنے دوپٹے کو پرچم بنا لیا ہے۔ اور امریکا سے کہا ہے کہ وہ معافی مانگے۔ محترمہ کے خیال میں پاکستان میں ایک منتخب حکومت قائم ہے اور وزیر اعظم عمران خان عوام کے ہر دلعزیز اور منتخب وزیر اعظم ہیں۔ جہاں تک مہنگائی اور بے روزگاری کا شور شرابا ہے یہ اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں عوام کی قوت ِ خرید کا تعلق ہے۔ تو اس معاملے میں خدا کا فضل و کرم ہے۔ جہاں دیکھوں خریداروں کا رش لگا ہوا۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ عوام سہولت بازاروں کا رخ کرنا اپنی انا کی توہین سمجھتے ہیں۔