دہشت گردی کے ثبوت تو ہیں، اقدام کیا کیا

186

پاک فوج کے ترجمان نے وزیر خارجہ کے ساتھ دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ کراچی، لاہور اور پشاور میں بھارتی دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے اس حوالے سے بتایا کہ بھارت نے حال ہی میں داعش کے 30 دہشت گردوں کو پاکستان اور اردگرد منتقل کیا ہے۔ نومبر ، دسمبر اہم ہیں۔ بھارت نے اہم پاکستانی شخصیات کے قتل کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اور دہشت گردی کی تمام حالیہ کارروائیوں کے پیچھے بھارت ہے۔ ہمارے پاس اس کے ثبوت موجود ہیں۔ بھارت نے الطاف گروپ کے دہشت گردوں کو تربیت دی۔بانی ایم کیو ایم کو ’را‘ فنڈنگ کے 3.23 ملین ڈالرز منتقلی کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ وزیر خارجہ نے بھی کہا کہ بھارت دہشت گردوں میں 22 ارب روپے تقسیم کر چکا ہے۔ سی پیک مخالف سیل کو منصوبوں کو نشانہ بنانے کے لیے 80 ارب روپے دیے جا چکے۔ اس کے شواہد عالمی برادری کے سامنے ڈوزیئر کی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔ دونوں ذمے داران کی باتیں ہولناک خطرناک انکشافات اور خوش نما اعلانات بھی ہیں۔ ہولناک بات یہ ہے کہ اگر داعش کے 30 دہشت گردوں کو پاکستان اور اردگرد منتقل کرنے کی اطلاع موجود ہے۔ اہم پاکستانی شخصیات کے قتل کا منصوبہ بندی کا علم ہے اور فنڈنگ کا ثبوت ہے تو سوال الٹا حکمرانوں سے ہو گیا کہ پھر آپ نے کیا اقدام کیا۔ یہ بتانا کیوں ضروری تھا کہ کراچی، پشاور اور لاہور میں دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ بھارتی دہشت گردی کا خدشہ تو پورے پاکستان میں ہر وقت ہے۔ پی ایس ایل کے انتہائی اہم دنوں میں یہ انکشاف پی ایس ایل کو بھی اور مستقبل کی کرکٹ کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایسے ہی اعلانات سابق وزیر داخلہ رحمن ملک بھی کرتے رہتے تھے اور کوئی واردات ہو جاتی تو بتاتے تھے کہ ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ لیکن وہ بھی نہیں بتا سکے کہ انہوں نے روک تھام کے لیے کیا اقدام اٹھایا۔ صرف تعداد معلوم کرکے خبر دینا تو کوئی کام نہیں۔ سب سے بڑا ثبوت الطاف گروپ کے دہشت گردوں کو تربیت دینے اور 3.23 ملین ڈالر منتقلی کا ہے۔ لیکن حکومت اور ترجمان بھی بتائیں کہ جس الطاف گروپ کے دہشت گردوں کو تربیت دی گئی تھی وہ لوگ کہاں ہیں۔ الطاف کو الگ کرکے چار گروپ بنا دیے گئے ہیں اور سب کے سب معزز ٹھہرے۔ پھر تربیت کس کو ملی تھی وہ لوگ کہاں گئے جنہیں تربیت ملی تھی اور پیسے ملے تھے۔ یہ انکشافات تو حکومت کے لیے سوال ہیں کہ پھر حکومت نے کیا کیا۔