ڈوب کر چمکنے والے صحافتی ستارے

190

پچھلے دنوں کئی صحافتی ستارے اس دنیا سے رخصت ہوگئے جن میں اطہر ہاشمی، ادریس بختیار، سعود ساحر، جسارت کا ایک نوجوان رپورٹر قاضی عمران۔ ادریس بختیار کا انتقال تو بہت پہلے ہوگیا تھا ان کے ساتھ روزنامہ جسارت میں بڑی طویل رفاقت رہی ہے ان کے بارے سوچا تھا کہ کچھ لکھا جائے لیکن روایتی سستی آڑے آگئی۔ اطہر ہاشمی پر تو کالم آچکا ہے۔ پچھلے دنوں جب سعود ساحر حب کے انتقال کی خبر ملی کچھ وہ باتیں یاد آئیں جو انہوں نے مجھ سے شیئر کی تھیں وہ اکثر کراچی آتے رہتے تھے تو جسارت میں روز لازمی آتے کہ وہ ان دنوں جسارت کے لیے کام کرتے تھے۔ سعود ساحر سادہ طبیعت کے کھلے ڈلے آدمی تھے وہ چھوٹا ہو بڑا ہو سب سے خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ کراچی سے باہر کے جو نمائندے جسارت آتے تو ان کے زیادہ تر معاملات شعبہ حسابات سے متعلق ہوتے اس لیے تمام ہی لوگوں سے ملاقات اور بات چیت ہو جاتی۔ سعود ساحر کیسے رپورٹر تھے اور کس طرح خبریں نکال کر لاتے تھے اس حوالے سے وہ فن کی بلندیوں پر تھے۔ دروغ بر گردن راوی ان کے حوالے سے ایک واقعہ سنا کہ اسلام آباد یا پنڈی میں پاکستان قومی اتحاد کا 1977 میں اہم اجلاس ہونے والا تھا اس زمانے میں بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی انہیں اس اجلاس میں ہونے والی گفتگو اور فیصلوں کی خبر لے کر جلد از جلد اپنے اخبار کو بھیجنا تھی۔
اس طرح کی صورتحال میں اجلاس کے اختتام کے بعد رپورٹرز شرکاء اجلاس سے ایسے تیکھے سوالات کرتے کہ جس سے انہیں کچھ ایکسکلیوسیو نیوز مل جائے۔ سعود ساحر اجلاس شروع ہونے سے پہلے کسی طرح اس کمرے میں چلے گئے جہاں پی این اے کا اجلاس ہونا تھا انہوں نے دیکھا کہ جس میز کے چاروں طرف کرسیاں لگی ہوئی ہیں اس میز کی چادر بہت نیچے یعنی فرش تک جارہی ہے۔ ان کے ذہن میں معاً ایک خیال آیا اور اجلاس شروع ہونے سے کچھ پہلے وہ میز کے نیچے جا کر لیٹ گئے، چھوٹے قد کے آدمی تھے اس لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پھر انہوں اجلاس کی ساری کارروائی براہ راست نوٹ کی دوسرے دن سعود ساحر کی رپورٹنگ پر ایسی خبر لگی کہ خود پی این اے کے لیڈران حیران تھے کہ ہم نے یہ بات کسی پریس بریفنگ میں نہیں کہا پھر یہ اخبار میں کیسے شائع ہو گئی۔
جب بھٹو صاحب کی سزائے موت کا عدالت سے فیصلہ آیا تو اس وقت یہ خبر عام ہوئی کہ 5اپریل کے بعد کسی دن پھانسی دے دی جائے گی، یہ 1979 کی بات ہے سعود ساحر کو اپنے ذرائع سے یہ پتا چل گیا کہ 3 اور 4 کی درمیانی رات کو بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی جائے گی، انہوں نے صلاح الدین صاحب جو اس وقت جسارت کے ایڈیٹر تھے کو بھی اطلاع کردی، جسارت نے 3اپریل کی رات کو ہی جسارت کا سپلیمنٹ نکالنے کے انتظامات کرلیے تھے لیکن ایک شبہ تو تھا کہ یہ خبر غلط نہ ہو، اُدھر سعود ساحر سے رابطہ بھی نہیں ہو پارہا تھا کہ بتائیں کے آج کی رات پھانسی دیے جانے کی خبر واقعی پکی ہے یا ایک افواہ۔ صلاح الدیں صاحب نے براہ راست جنرل ضیاء کو فون کیا اور معلوم کیا کہ کیا آج رات کو بھٹو صاحب کو پھانسی دی جارہی ہے۔ جنر ل ضیاء نے انکار کیا اور کہا کہ پھانسی تو پانچ کے بعد ہی کسی دن ہو گی۔ صلاح الدین صاحب نے اس بات چیت کے بعد اس اسٹاف کو بھی گھر جانے کا کہہ دیا جو سپلیمنٹ کے لیے رکا ہوا تھا اور خود بھی اطمینان سے گھر چلے گئے۔ دوسری طرف راولپنڈی میں سعود ساحر کو یہ پکی خبر مل چکی تھی آج رات ہی کو یعنی 3اور 4 کی درمیانی رات کو پھانسی دی جائے گی۔ وہ جیل تک پہنچ گئے جیسے ہی پھانسی ہو جائے وہ کراچی اپنے اخبار کو اطلاع کر دیں لیکن انہیں جیل کے پاس سے گرفتار کرلیا گیا اور اس اہم خبر کو بریک نہ کر سکے۔ 4اپریل کی صبح روزنامہ جنگ کا سپلیمنٹ پھانسی کی خبر کا مارکیٹ میں آگیا اور عام پبلک کو علی الصباح یہ اہم خبر مل گئی۔ پھر صبح صلاح الدین صاحب دفتر جسارت آئے اسٹاف کو بھی بلوایا گیا اور پھر جسارت کا سپلیمنٹ بھی مارکیٹ میں آگیا لیکن صلاح الدین صاحب جنرل ضیاء صاحب کی گفتگو کے حوالے رنجیدہ اور شرمندہ تھے کہ ان سے جنرل صاحب نے سچ نہیں بولا اور وہ کچھ دن جنرل صاحب سے ناراض بھی رہے۔ لیکن سعود ساحر کی دی ہوئی خبر سچی نکلی۔
ایک دفعہ جب وہ جسارت کے دفتر کراچی آئے تو شاید کسی سے کوئی بات ہوئی انہوں نے کہا یار آپ لوگ پنجابیوں کے بارے نجانے کیوں غلط رائے رکھتے ہو، پنجابی تو بڑے سیدھے سادے اور بھولے بھالے لوگ ہوتے ہیں۔ پھر میرے پاس بیٹھ کر انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ہماری والدہ ہم بہن بھائیوں کو انڈیا سے پاکستان آئیں انہیں کراچی جانا تھا وہاں کسی رشتہ دار کا نام و پتا ان کے پاس تھا جب پنڈی کا اسٹیشن آیا تو کسی نے ان سے کہہ دیا کہ یہ کراچی کا اسٹیشن ہے والدہ بچوں کو لے کر اتر گئیں اور لوگوں سے وہ کراچی کا وہ پتا پوچھنے لگیں جو ان کے پاس تھا، وہاں معلوم ہوا کہ یہ کراچی نہیں بلکہ راولپنڈی کا اسٹیشن ہے گاڑی بھی جا چکی تھی وہ بڑی پریشان ہوئیں اسٹیشن کے پیچھے ایک دیوار کے ساتھ ہم بہن بھائیوں کو لے کر بیٹھ گئیںاور اللہ سے دعا مانگنے لگیں کہ کہیں سے کوئی مدد و رہنمائی مل جائے اتنے میں ایک بزرگ جن کے چہرے پرسفید ڈاڑھی اور ہاتھ میں تسبیح تھی کا وہاں سے گزر ہوا انہوں رک کر ہم سے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں اور یہاں کیسے بیٹھے ہیں۔ والدہ نے سارا ماجرا ان کو سنایا کہ ہم لوگ ہندوستان سے آئے ہیں کراچی جانا تھا، کسی نے ہمیں غلطی سے یہ بتادیا کہ یہ کراچی اسٹیشن ہے ہم اُتر آئے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کراچی نہیں ہے اب ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ وہ بزرگ بولے آئیے میرے ساتھ چلیے وہ اپنے گھر لے گئے، اپنے گھر کا ایک حصہ جس میں ایک کمرہ بنا ہوا تھا رہنے کے لیے دیا کھانا پینا بھی ان کے گھر سے چلتا رہا ہم اور بھائی کسی جگہ کام سے لگ گئے اپنا کھانا پینا الگ کرلیا لیکن اس فرشتہ صفت بزرگ نے ہمیں اپنے گھر سے جانے نہیں دیا ہماری تعلیم کے پورے اخراجات اٹھائے پھر اپنی بیٹی سے شادی بھی کردی دیکھو ایسے ہوتے ہیں پنجابی۔