کراچی سرکلر ٹرین بحالی کے بعد جلد بند ہوجائے گی‘ نامکمل روٹ سے بھاری مالی نقصان ہوگا

225

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) کراچی سرکلر ریلوے اب آج پیر 16 نومبر کے بجائے جمعرات 19 نومبر سے چلائی جائے گی تاہم خدشہ ہے کہ یہ ٹرین 22 سال بعد دوبارہ بحال ہونے کے بعد بھی جلد ہی پھر بند ہوجائے گی۔ اس سرکلر ٹرین کو صرف توہین عدالت کے خدشات کے باعث ہنگامی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان ریلوے نے (کے سی آر) کے تقریباً 55 کلو میٹر پرانے روٹ کے 14کلومیٹر کلیئر راستے پر ٹرین کی بحالی کے لیے تیاری مکمل کرلی ہے، ساتھ ہی باقی حصے پر صوبائی حکومت کے اشتراک سے آپریشن کی بحالی کے لیے اْمید کا اظہار کیا گیا ہے۔اس جزوی روٹ پر کے سی آر کی بحالی کے بعد جلد ہی دوبارہ بند ہوجانے کے خدشات اس لیے ہیں کہ مسافروں ٹرین میں سفر کرنے کے خواہشمند مسافروں کو وقت پر اسٹیشنوں تک پہنچنے کے لیے کسی شٹل سروس یا کوئی ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام صوبائی حکومت تاحال نہیں کرسکی جبکہ شہریوں کو مختلف مقامات پر بلا تاخیر تیز رفتار ٹرانسپورٹ کے ذریعے مطلوبہ مقام پر پہنچنا ہوتا ہے خیال ہے کہ 14 کلومیٹر کایہ مختصر سفر لوگ صرف تفریح کے طور پرکریں گے ۔واضح رہے کہ کے سی آر کی بحالی کے بعد اسے 20 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر چلایا جائے گا۔ یہ بھی خیال رہے کہ چیئرمین پاکستان ریلوے ڈاکٹر حبیب الرحمن گیلانی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت (پرانے کے سی ا?ر کی بحالی اور نئے کے سی آر منصوبوں کے آغاز) کے تحت ہم 19 نومبر سے موجودہ بحال شدہ انفرا اسٹرکچر (ٹریک، سگنلز وغیرہ) پر نئی تجدید شدہ (ری فربشڈ) ٹرینیں چلانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ کووڈ 19، خریداری، مزدور وغیرہ سے متعلق کچھ مسائل کا سامنا ہے تو ہم پورے 55 کلومیٹر کے پرانے کے سی آر روٹ کے مکمل شدہ (14 کلومیٹر) کے حصے پر (کراچی سٹی سے اورنگی اور دوبارہ کراچی سٹی) ٹرینیں شروع کریں گے، باقی روٹ پر آپریشن 19 نومبر کے بعد ممکنہ طور پر اسی مہینے یا آئندہ ماہ شروع کیا جائے گا۔حبیب الرحمن گیلانی کا کہنا تھا کہ سب سے اہم چیز نئے کے سی آر پر سول ورک کو شروع کرنا ہے جو لوپ لائن پر مکمل ہوگا اور اس میں ٹریک کے دونوں اطراف باڑ کے ساتھ کراسنگ فری 80 کلو میٹر (زیادہ سے زیادہ) اسپیڈ شامل ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ نیا کے سی آر 2 سے ڈھائی سال کے عرصے میں مکمل ہوجائے گا اور یہ ہماری طرف سے کراچی کے عوام کے لیے تحفہ ہوگا، مزید یہ کہ اسے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت بنایا جائے گا کیونکہ اس میں نجی کمپنیوں کی جانب سے زیادہ سرمایہ کاری ہوگی۔ خدشات ہیں کہ پاکستان ریلوے کو بغیر تیاری کے ٹرین چلانے سے بھاری مالی ک نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔