ٹی ایل پی دھرنا، لیاقت باغ میدان جنگ بن گیا، املاک کو نقصان

270

راولپنڈی: مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سینکڑوں کارکنان نے پیر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے سنگم میں واقع فیض آباد چوک پر دھرنا دے دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں تعینات فرانس کے سفیر کو واپس نہیں بھیجا جاتا وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔

خبر رساں  ادارے کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی میں گزشتہ روز لیاقت باغ کو اس وقت میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگا جب پولیس اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ڈنڈہ بردار کارکنان کے درمیان دن بھر تصادم جاری رہا ہے جبکہ متعدد پولیس اہلکار اور ٹی ایل پی کے کارکنان زخمی ہوگئے تھے۔

تفصیلات کے مطابق فساد پر قابو پانے کے لیے موجود پولیس نے پتھراؤ کرنے والے ان مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا جو فرانس میں میگزین چارلی ہیپڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور فرانسیسی صدر ایمانیوئل میکرون کے اسلام اور دہشت گردی سے متعلق بیان کے خلاف ٹی ایل پی سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کی کال پر جمع ہوئے تھے جبکہ جھڑپوں کے دوران ایس ایچ او تھانہ وارث خان سمیت درجنوں پولیس اہلکار اور متعدد ٹی ایل پی کے کارکنان زخمی ہوگئے جنہیں ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔

میڈیا کے مطابق لیاقت باغ کے قریب علاقے کے ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ شیلنگ نے متصل علاقوں کے رہائشیوں کو بھی متاثر کیا اور بہت سے افراد کو سانس لینے میں پریشانی کی شکایات ہوئیں جبکہ ریلی کو روکنے کے سلسلے میں شہر کے 24 داخلی راستے جس میں سون برج، کچہری چوک، مریر چوک، لیاقت باغ، شمس آباد، رحمٰن آباد، ڈبل روڈ، اڈیالہ روڈ، چھر چوک اور آئی۔ جے پرنسپل روڈ شامل ہیں انہیں شپنگ کنٹینرز کی مدد سے بند کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق  اسلام آباد کے لیے 16 داخلی راستوں کو بھی بند کیا گیا تھا اور پورے راولپنڈی ڈویژن میں ہفتے کی رات سے موبائل فون سرس بھی معطل کردی گئی تھی جبکہ  فیض آباد کے مقام پر اسلام آباد میں داخل ہونے والی ہر گاڑی خاص طور پر پبلک ٹرانسپورٹ کو پولیس حکام چیک کر رہے تھے اور مسافروں سے سوالات بھی کر رہے تھے۔

سٹی پولیس افسر محمد احنس یونس خود ٹی ایل پی مظاہرین کے خلاف کارروائی کی نگرانی کرتے رہے ہیں اور جمعہ اور ہفتے کو 170 سے زائد اور اتوار کو 130 کارکنان کو گرفتار بھی کیا گیا تھا جبکہ  مظاہرین جن کی سرکاری تعداد تقریباً 3 ہزار بتائی گئی تھی وہ اتوار کو فیض آباد انٹرچینج کے مقام پر پہنچنے میں کامیاب رہے تھے اور وہاں انہوں نے دھرنا دے دیا تھا اور مری روڈ اور فیض آباد پر اسٹریٹ لائٹس بھی بند کردی گئی تھیں۔

مذکورہ ریلی کے پیش نظر اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری پولیس نے غیرمعمولی سیکیورٹی انتظامات کیے تھے تاکہ مظاہرین کو علاقے میں داخل ہونے سے روکا جائے جبکہ ٹی ایل پی سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ گرفتاریوں اور شیلنگ سے رکیں گے نہیں اور منصوبے کے مطابق ریلی جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب  کمشنر کیپٹن (ر) محمد محمود کو جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق کمیٹی چوک اور وارث خان میٹرو بس اسٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے گئے اور سکتھ روڈ اسٹیشن کے گلاس پینز اور فیض آباد پر ایلی ویٹر کو نقصان پہنچایا گیا ہے  جبکہ مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافیوں نے دعویٰ کیا کہ ٹی ایل پی کارکنان نے انہیں ہراساں کیا اور ان کے موبائل فون چھین لیے ہیں۔

واضح رہے یہ مقام وہ ہے جہاں ٹی ایل پی 2017 اور پھر 2018 میں بھی دھرنا دے چکی ہے اور ماضی میں حکومت سے ایک معاہدے کے بعد اس نے دھرنا ختم کیا تھا۔