مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

167

میں: مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
وہ: سبحان اللہ کیا خوب صورت سلام ہے احمد رضا خاں بریلوی کا۔ میرے خیال میں اردو زبان میں نبی کریمؐ کی مدح میں یہ سب سے زیادہ مشہور اور زبان زدِعام ہونے والا انتہائی شیریں کلام ہے۔
میں: لیکن میرا تم سے ایک سوال ہے کہ آپؐ تو ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے پھر اس رحمت کا فیض اور برکتیں غیر مسلموں میں تو بہت دور کی بات ہے ہم مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی کہیں نظر نہیں آتیں؟
وہ: رحمت ہمیشہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس سے فیض وبرکت حاصل کرنا بندے کا کام ہے۔ اللہ کے آخری نبیؐ کی ذات پاک تو ہر زمانے کے لیے سراپا رحمت ومحبت ہے اور رہے گی۔ جہاں تک اس رحمت سے فیض حاصل کرنے کا معاملہ ہے تو بہت سارے کفار آپؐ کو اپنی زندگیوں میں پا کر بھی وہ فیض نہ پاسکے۔ کعبے کی دیواروں سے کان لگا لگا کر چوری چھپے حبیبِ دوجہاںؐ کی آواز میں قرآن کی آیات کو سنتے تھے مگر وہ اور ان میں سے بعض کی نسلیں بھی اس رحمت کے بادلوں تلے ہونے کے باوجود چہار جانب برسنے والی محبت، ایثار، خلوص اور پیار کی بارش سے محروم رہیں۔
میں: بے شک یہ تو ہم مسلمانوں کی بالخصوص اور دنیا کے باقی تمام انسانوں کی بالعموم کوتاہی ہے کہ رحمۃ اللعالمینؐ کی سیرت وکردار کے مطابق اپنی زندگیوں اور معاشرت کو نہ ڈھال سکے۔
وہ: تمہیں ہندی ادب کی ایک کہاوت سناتا ہوں، جو میں نے برسوں پہلے پڑھی تھی۔
میں: ہندی کی کیوں کیا اردو ادب میں کہاوتیں ختم ہوگئیں ہیں؟
وہ: میرے بھائی اپنی زبان سے محبت بہت اچھی بات ہے مگر زبانوں کی بنیاد پر تعصب تو نبیؐ کی تعلیم نہیں ہے۔ تم نے سیدنا علیؓ کا وہ قول نہیں سنا کہ علم مومن کی گم شدہ میراث ہے اس لیے جہاں سے ملے حاصل کرلو۔
میں: ہاں سیدنا علی ؓ کا یہ قول میں نے سن رکھا ہے، تم وہ کہاوت سنائو میں نے بڑے دن سے کوئی کہاوت نہیںسنی۔
وہ: ہندو مت میں گرو اور چیلے کا، استاد اور شاگرد جیسا ایک رشتہ ہوتا ہے، چیلے اپنے گرو سے زندگی کے گُن سیکھتے ہیں، تپسیا کا درس لیتے ہیں جو انہیں دنیا داری اور گھر گرہستی سے آزاد رکھتا ہے۔ ایک چیلا جو برسوں سے اپنے گرو کی خدمت اور تپسیا کررہا تھا اس کے گرو نے ایک دن اس سے کہا کہ ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ سب تمہیں سکھا دیا، اب فلاں علاقے کے فلاں گرو کے پاس چلے جائو اور بقیہ گیان ان ہی سے حاصل کرو۔ مہینوں کی مسافت طے کرنے
کے بعد چیلا اپنے گرو کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ گرو نے جس مہا گرو کے پاس اسے بھیجا ہے وہ دنیا داری میں ڈوبا ہوا ہے اور ایک بڑی سلطنت کا مالک ہے، عالیشان سواری پر آتا جاتا ہے اور سیکڑوں چیلے اس کی جناب میں ہر وقت حاضر رہتے ہیں۔ بڑی مشکل سے چیلے کو رسائی کا موقع ملا اپنا تعارف کرایا تو بادشاہ نے اسے آرام سے ٹھیرایا اور اگلی صبح بلا بھیجا۔ بادشاہ نے کہا گیان کی باتیں بعد میں کریں گے پہلے ذرا شہر گھوم آئو، لوگوں سے مل آئو، دیکھو ہمارا نظم ونسق کیسا ہے۔ مگر جاتے جاتے چیلے کو دودھ سے لبالب بھرا ہوا ایک پیالہ تھما دیا اور کہا خیال رہے کہ شہر گھومنے کے دوران اس پیالے میں سے دودھ کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرنے پائے ورنہ تمہارے ساتھ چلنے والا یہ جلاد اپنی تلوار سے اسی وقت تمہاری گردن اُڑادے گا۔ چند گھنٹوں بعد پسینے میں شرابور چیلا اپنے ہاتھوں میں دودھ سے بھرا پیالہ لیے واپس دربار پہنچا تو بادشاہ نے شہر کی بابت دریافت کیا۔ بتائو بھئی کیسا لگا ہمارا شہر، ہمارا حسنِ انتظام۔ تو چیلا حیران وپریشان بادشاہ کو تکنے لگا… بادشاہ نے مسکراتے ہوئے چیلے سے کہا اب سمجھ میں آیا ہماری یہ شاہانہ چکا چوند تو بس ایک دکھاوا ہے یہ جو پیالہ تمہارے ہاتھ میں ہے نا یہ ہماری ریاست اور اس میں پڑا دودھ ہماری رعایا ہے، ایسے خیال رکھتے ہیں ہم اپنی
رعایا کا، اس کے آرام وسکون کے لیے رات دن خود کو ہلکان رکھتے ہیں لیکن انہیں ذرہ برابر تکلیف نہیں ہونے دیتے، معمولی سی ٹھیس بھی نہیں پہنچنے دیتے۔
میں: سبحان اللہ کیا بر محل حکایت سنائی تم نے، پیارے نبیؐ نے بھی تو ساری عمر اسی طرح گزاری اپنی امت اور تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے خود کو ہر وقت ہلکان کیے رکھا، اور اپنی ذات کو دودھ کی طرح صاف شفاف رکھا، اپنے کردار کے امتیاز کو روئے زمین کے ہر انسان کے سامنے رہتی دنیا تک ایک مثال بنا کر پیش کردیا۔
وہ: اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب میں کہا ہے نا اور تمہارے لیے محمدؐ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچو کہ دودھ کا پیالہ نبی پاکؐ کی ذات مبارک اور اس میں موجود دودھ آپ کی سیرت کاملہ ہے، مگر افسوس کہ ہمارا عمل صرف پیالے کے باہر بنے نقش ونگار کی تعریف کرنے اور ظاہری وضع قطع اختیار کرنے سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ اور دودھ کی طرح شفاف آپؐ کی سیرت وکردار ہماری زندگی کے شاید ہی کسی گوشے میں جھلکتی ہو۔
میں: آج کی گفتگو کے بعد میرے ذہن میں رحمۃ للعالمین ؐ کے حوالے سے ایک اور نکتہ واضح ہوا ہے۔ جس طرح اس زمین پر زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالی نے آگ، ہوا، مٹی اور پانی کو بنیاد قرار دیا تو زندگی سنوارنے کے لیے آپؐ کی ذات کو رحمت بنا کر بھیجا اور جیسا کہ تم نے گفتگو کے آغاز میں کہا تھا کہ رحمت ہمیشہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اس سے فیض وبرکت حاصل کرنا بندے کا کام ہے۔