کراچی (اسٹاف رپورٹر)بلدیہ عظمیٰ کراچی آئندہ چند روز میں محمود آباد نالے پر منظور کالونی فائر بریگیڈ اسٹیشن سے کورنگی روڈ کے درمیان قائم غیر قانونی طور پر بنے 850 مکانات منہدم کرے گی۔انسداد تجاوزات کی یہ بڑی کارروائی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ضلع شرقی کی انتظامیہ کے اشتراک سے کی جائے گی۔
یاد رہے کہ یہ کارروائی گزشتہ ہفتے کے آغاز میں عمل میں لائی جانی تھی تاہم پاکستان سپر لیگ کے باقی ماندہ میچز کے کراچی میں انعقاد کے پیش نظر اسے ملتوی کردیا گیا تھا۔میٹروپولیٹن کمشنر بلدیہ عظمیٰ کراچی افضل زیدی اس کام کی نگرانی کریں گے۔ گرائے جانے والے یہ مکانات نالے کے دونوں جانب کل ساڑھے 3 کلومیڑ طویل پٹی پر بنے ہوئے ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی نے سن 1987ء تک ان زمینوں کو تو لیز فراہم کی تھی جس پر مکانات نالے سے فاصلے پر قائم ہیں تاہم جو تعمیرات نالے کے اصل پاٹ پر موجود ہیں ان کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔سن 1987ء کے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے نوٹیفکیشن کے مطابق محمود آباد نالے کا اصل پاٹ مختلف جگہوں پر مختلف چوڑائی رکھتا تھا جسے تجاوزات نے اب محدود کردیا ہے۔
منظور کالونی سے بسم اللہ پل تک نالے کی اصل چوڑائی 100 فٹ تھی جو اب 10 تا 12 فٹ رہ گئی ہے، بسم اللہ پل سے اختر کالونی تک نالہ 150 فٹ چوڑا ہوا کرتا تھا جو اب محض 12 فٹ تک محدود ہوچکا ہے جبکہ اختر کالونی سے کورنگی روڈ تک نالے کی اصل چورائی 200 فٹ تھی جو اب صرف 50 فٹ باقی رہ گئی ہے۔
افضل زیدی کا کہنا ہے کہ گرائے جانے والے تمام مکانات غیر قانونی ہیں اور لوگ ان میں بغیر کسی سرکاری دستاویز کے رہ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نالے کو اس کی اصل شکل اور سائز میں بحال کیا جارہا ہے جو سن 1987ء کے ماسٹر پلان میں متعین تھی اور اس مقصد کیلئے جو کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بھی ہے، تجاوزات مسمار کی جائیں گی۔
افضل زیدی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں مذکورہ سائٹ کا تین سے چار مرتبہ سروے کیا گیا ہے تاکہ نالے کے دونوں جانب قائم غیر قانونی تعمیرات کا تعین کیا جاسکے۔افضل زیدی کا کہنا ہے کہ شہر کے دیگر نالوں کے برخلاف جہاں مختلف ادارے لیز کی فراہمی کے مجاز ہیں، محمود آباد نالہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر اہتمام ہے اور اسی کے محکمہ کچی آبادی نے مذکورہ علاقے میں لیزیں جاری کی ہیں، اس وجہ سے اس کیلئے وہاں یہ کارروائی کرنا آسان ہے کیوں کہ وہاں زمین کی ملکیت والے کسی اور ادارے کا عمل دخل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسداد تجاوزات کی یہ کارروائی بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر اداروں کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہوگی کیوں کہ شہر کے دیگر نالوں کے مقابلے میں یہاں سے تجاوزات ہٹانا نسبتاً آسان ہوگا۔سینئر ڈائریکٹر لینڈ بلدیہ عظمیٰ کراچی مظہر خان کا کہنا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ضلع شرقی کی انتظامیہ نے نالے پر غیر قانونی تعمیرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ تعمیرات سن 1990ء میں ہوئی تھیں اور چوں کہ یہ برساتی نالے پر بنیں اس وجہ سے یہ جگہ لیز بھی نہیں ہوسکتی تھی اور یہاں جن لوگوں نے قبضہ کیا انہوں نے یہاں مکانات بنا کر فروخت کردیئے یا کرائے پر چڑھا دیئے ہیں۔
حکومت نے ایسے مکانات خریدنے والوں کو ان کے مکانات منہدم کرنے کے عیوض 3 لاکھ روپے دینے کی پشکش کی ہے تاہم مکین اس پر رضامند نہیں اور مارکیٹ پرائس پر رقم چاہتے ہیں۔مظہر خان کا کہنا ہے کہ حکومت صرف لیز شدہ زمین پر متاثرین کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ادائیگی کرنے کی قانونی طور پر پابند ہے نہ کہ غیر لیز شدہ ایراضی پر۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ اس جگہ برسوں سے رہ رہے ہیں اور مکانات کی تعمیر پر اپنی جمع پونجی صرف کرچکے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے آپریشن کے دوران کسی مزاحمت کے پیش نظر پولیس اور رینجرز کی نفری بھی طلب کرلی ہے۔