کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت

230

بھارتی فوج کی مقبوضہ کشمیر کے قصبہ کپواڑہ میں مبینہ طور پر مجاہدین کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس میں چار فوجیوں کی ہلاکت سمیت بھارت کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ بھارت نے اس کے اسباب کا تعین کرنے کے بجائے عوام کے سامنے اپنی خفت مٹانے کے لیے گزشتہ روز کنٹرول لائن کے سیکٹروں میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھاری ہتھیاروں، توپ خانہ، مارٹر گولوں اور راکٹوں سے شہری آبادی کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس کارروائی میں چار شہری اور پاک فوج کا ایک جوان شہید ہوا جوابی کارروائی میں چار بھارتی سورما جہنم واصل ہوئے جبکہ بھارتی فوج کو اس واقعہ کی وجہ سے اپنے عوام کے سامنے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا بھارتی فوج کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کنٹرول لائن سے ملحقہ وادی نیلم کے علاقوں میں ہنکرکیل، شاروہ، دودنھیال، شہکوٹ، جوڑہ، انوسیری اور وادی ٔ لیپہ کے علاقوں میں ڈنہ، منڈال، کیانی اور اسی طرح وادی ٔ جہلم کے علاقوں میں جھم اور پاڈو سیکٹر جبکہ باغ ویلی کے علاقوں میں پیر کنٹھی، سنکھ، حاجی پیر، بڈوڑی اور کیلر شامل ہیں۔ ان علاقوں میں بھارتی فوج نے بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ اور وقفے وقفے سے جاری رکھا جس پر اسے پاک فوج کی سخت جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بھارتی دہشت گردی کے باعث متذکرہ شہری آبادیوں میں خوف و دہشت کی فضا پیدا ہو گئی جبکہ بھارتی گولہ باری سے رہائشی مکانات سمیت متعدد عمارتوں کو آگ لگ گئی اور لوگ خوفزدہ ہو کر گھروں سے باہر نکل آئے جن میں ضعیف العمر افراد غم سے نڈھال نظر آئے۔
بھارت کی جانب سے روز مرہ کی یہ محض اشتعال انگیزی نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو کھلم کھلا چیلنج ہے، جس کا پاکستان کی طرف سے سخت نوٹس لیا گیا اور گزشتہ روز سینئر بھارتی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کرکے قابض بھارتی فوج کی جانب سے کنٹرول لائن اور ملحقہ شہری آبادیوں پر جنونی کارروائیوں پر سخت احتجاج کیا گیا۔ بھارت کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ یہ کارروائیاں 2003ء کے جنگ بندی معاہدے، انسانی عظمت و وقار، بین الاقوامی انسانی حقوق و قوانین اور پیشہ ورانہ فوجی طرز عمل کے برعکس اور اس کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔ یہ واقعات ایل او سی پر کشیدگی بڑھانے کی مسلسل بھارتی کوششوں کا عکس اور خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان نے یہ بھی باور کرایا کہ ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر کشیدگی میں اضافہ کے ذریعے بھارت غیرقانونی طور پر اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے دنیا کی توجہ نہیں ہٹا سکتا۔
کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اشتعال انگیزی اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں بلاشبہ بی جے پی کے دور میں زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے جو ان کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو بھی کھلم کھلا چیلنج کر رہی ہے اور فی الواقع پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ مودی کے گزشتہ اور موجودہ دور میں کنٹرول لائن پر بھارتی جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں تھما جبکہ بھارت سرحدوں پر پاکستان کے ساتھ بھی کشیدگی مسلسل بڑھا رہا ہے اور اسے غیرمستحکم اور انتشار کا شکار کرنے کے لیے پاکستان کے اندر دہشت گردی، فرقہ واریت، لسانیت اور قومیت پرستی پھیلانے کی گھنائونی سازشوں میں مصروف ہے جس کے لیے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں اپنے نیٹ ورک پھیلا رکھے ہیں جن کے ذریعے دہشت گردوں اور انتہاء پسند برگشتہ عناصر کی سرپرستی اور فنڈنگ کرکے اور انہیں پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے چار سال قبل بھی ان بھارتی مذموم سرگرمیوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے حوالے سے ایک جامع ڈوژیئر تیار کرکے اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ کے حوالے کیا گیا تھا جبکہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی پریس کانفرنس میں حکومت پاکستان کا تیار کردہ ایک نیا ڈوژیئر بھی پیش کیا جس میں باقاعدہ ثبوتوں، ٹھوس شواہد اور آڈیو، ویڈیو کلپس کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والے بھارتی نیٹ ورک کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ بھارتی ایجنسیوں نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے منصوبے کے تحت پاکستان کی کالعدم، انتہاء پسند اور علیحدگی پسند تنظیموں کو بھاری رقوم منتقل کی ہیں جنہیں اب تک 22، ارب روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں اور انہیں دہشت گردی کے ٹارگٹ بھی بتائے گئے ہیں اب پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ یہ انکشاف بھی کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے بھارتی ایجنسیوں اور ان کے سہولت کاروں کے مابین کم از کم چار نشستیں ہو چکی ہیں۔ یہ دہشت گردی کے لیے لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت پاکستان کے بڑے شہروں کو فوکس کریںگے۔ انہوں نے اقوام عالم کو باور کرایا کہ بھارت کا مقصد پاکستان کی امن کی طرف پیش رفت میں خلل ڈالنا ہے جس کے لیے بھارتی ایجنسیاں، ان کے ایجنٹ اور تربیت یافتہ لوگ پاکستان میں قومیت پرستی اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ وہ درحقیقت سیاسی عدم استحکام کے ذریعے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے درپے ہیں۔