گلگت بلتستان الیکشن ،کیا عوام بے شعور ہیں

254

گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات ہو گئے ۔ انتخابی مہم ، الیکشن کمیشن کا رویہ ، انتخاب ، پولنگ ،نتائج غرض ہر کام بالکل اسی طرح ہوا جس طرح پاکستان بھر میں ہوتا رہا ہے ۔ اور خصوصاً2018ء میں ہوا ۔یہاں تک کہ نتائج میں تاخیر بھی اسی طرح ہوئی ۔ نتیجہ وہی ہے کہ کسی پارٹی کو اکثریت بھی نہیں ملی۔7 آزاد ارکان فیصلہ کن کردار ادا کریں گے جو حکومت بھی بنے گی ان کی مرضی سے بنے گی ۔ یہ بلیک میل بھی کریں گے اور یہ بادشاہ گری بھی کریں گے ۔ پاکستان میں برسوں سے اس قسم کے انتخابات ہوتے ہیں اور اسی طرح کے نتائج آتے ہیں ۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی عوام کی رائے ہی منقسم رہتی ہے تو کیا کریں ۔ جلسے کچھ دکھا رہے ہوتے ہیں جائزے کچھ اور بتا رہے ہوتے ہیں لیکن نتائج کچھ اور ہوتے ہیں ۔ وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن نے نتائج مسترد کر کے تحریک کا اعلان کر دیا ہے ۔ لیکن حکومت کے پاس ایک زبر دست ہتھیار ہے جو اس نے استعمال کر لیا ۔ جلسے جلوس پر پابندی ۔ کیونکہ ان سے وبا پھیلنے کا زیادہ خدشہ ہے۔ شاید اسی دن کے لیے جلسے جلوس پر پابندی کا فیصلہ نہیں کیا جا رہا تھا ۔ جلسے جلوس پر پابندی سے وبا کی روک تھام میں فائدہ ہوگا یا نہیں حکومت کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہو گا ۔ جو کچھ گلگت بلتستان کے انتخابات میں ہوا اس کو کراچی کا ووٹر بھی سمجھتا ہے اوردیر اور سوات کا بھی ۔ لاہور کا بھی اور فیصل آباد کا بھی ۔ اسی لیے پی ڈی ایم نے براہ راست الزام عاید کیا ہے کہ یہ ووٹ چرانے کا فیصلہ تسلیم نہیں کریں گے۔ سلیکٹرز کو بھی براہ راست مخاطب کیا گیا ہے ۔ ویسے تو ہارنے والا اسی طرح کی باتیں کرنا ہے لیکن پاکستان میں ہارنے والے کی باتیں درست ہوتی ہیں۔ یہ باتیں پہلے تو ہارنے والے ایک دو دن کہتے تھے اس کے بعد گھروں میں جا بیٹھتے تھے اور اگلے پانچ برس کا انتظار کرتے۔ اس دوران خود رائٹ ٹرن، لیفٹ ٹرن اور یوٹرن لے کر معاملات سدھارنے کی کوشش کرتے اور پھر اگر معاملات طے ہو جاتے تو خود وہاں پہنچ جاتے جہاں دوسرے کے پہنچنے کو دھاندلی اور الیکشن چوری کہا جا رہا تھا۔ لیکن اب یہ بات پاکستان میں ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ انتخابی نظام فرسودہ ہے۔ اس کے ذریعے جب چاہے کوئی قوت انتخابی نتائج بدل دیتی ہے بلکہ فرسودہ سے زیادہ مشتبہ ہے۔ کیونکہ اس نظام میں الیکشن کمیشن سے لے کر پولنگ کے عملے اور سیکورٹی والوں کی ڈیوٹی تک سب کچھ کسی ایک جگہ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ مہینوں برسوں قبل مردم شماری میں گڑ بڑ پھر انتخابی حلقہ بندیوں کو اس مردم شماری کے مطابق بنانا۔ اسی طرح الیکشن سے چند روز قبل بلکہ الیکشن کی صبح اس کی اطلاع ملنا کہ فلاں علاقہ دس ہزار ووٹوں سمیت دوسرے حلقے میں چلا گیا ہے اور اول الذکر حلقے میں کسی اور جانب سے کوئی اور علاقہ شامل ہو گیا ہے۔ پھر یہی نئے علاقے نتائج بدلنے میں وزن ڈالتے ہیں۔ اور اب تو جدید نظام آر ٹی ایس آگیا ہے۔ اسے رزلٹ ٹرانسفر سسٹم کہا جاتا ہے لیکن 2018ء کے بعد سے رزلٹ ٹرانسفر کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ کسی کا رزلٹ کسی اور کے کھاتے میں ٹرانسفر کرنا۔ اپوزیشن نے 2018ء میں بھی یہ الزام لگایا تھا لیکن جلد ہی خاموشی چھا گئی تھی۔ اب اس نے زوردار آواز میں اس پر آواز اٹھائی ہے۔ اب گلگت بلتستان میں اس کام کی تکرار ہوئی ہے تو اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیا ہے۔ ایسے انتخابی نتائج گزشتہ کئی انتخابات میں لائے گئے ہیں کسی انتخاب میں کسی پارٹی کو مکمل اکثریت نہیں ملتی بلکہ سادہ اکثریت بھی نہیں ہوتی۔ ہر ایک کو حکومت بنانے کے لیے آزاد امیدواروں یا لوٹوں کی منت سماجت کرنی ہوتی ہے اور اب تو سب جانتے ہیں کہ لوٹوں اور آزاد کا کنٹرول بھی کہیں اور ہوتا ہے وہ بھی ہر ایک سے سودا کرنے کے بجائے ایک جگہ جا کر سودا کرتے ہیں۔ کبھی چھ نشستوں کو دوسری طرف ڈال دیں تو کوئی اور وزیراعظم بن جاتا ہے۔ یہ چھ ووٹ ہر وقت دھمکی کی طرح مسلط رہتے ہیں۔ یہ نظام کی خرابی ہے عوام کی نہیں۔ بلکہ اگر کوئی ایماندار سروے کریں اور پاکستان میں کراچی سے پیدل اسلام آباد اور پشاور تک جائیں راستے میں ملنے والے ہر فرد سے سوال کریں کہ پاکستان میں اسلام چاہتے ہو یا جمہوریت۔ یہ بات چیلنج کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ کی واضح رائے ہوگی کہ اسلام چاہتے ہیں۔ لیکن انتخابی نتائج دکھاتے ہیں کہ دنیا پرست پارٹیاں بڑی پارٹیاں ہیں۔ درحقیقت 1973ء کے دستور کے مطابق بھی اور تمام پارٹیوں کے پرانے منشور کے مطابق بھی پاکستان میں جس نظام کا نفاز ہوتا تھا وہ متناسب نمائندگی کا نظام تھا۔ لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ یہ نظام نہیں دیتے کیونکہ اس کے نتیجے میں ووٹ کو حقیقی عزت ملے گی۔ ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوگی۔افراد کی اہمیت کم اور پارٹی کی زیادہ ہو جائے گی۔ ووٹ افراد کے بجائے پارٹیوں کو ملیں گے اور پارٹی جس کو چاہے گی نامزد کرے گی۔ کوئی خلائی مخلوق کسی کو اچانک چھاتہ بردار کی طرح نہیں اتار سکتی۔ مسئلہ یہیں سے خراب ہوتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد کوئی سیاسی جماعت اختیارات نیچے منتقل کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ بلدیاتی انتخابات سیاسی حکومتوں کے دور میں کم ہی ہوتے ہیں۔ عوام کو سیاسی حقوق اور سیاسی فیصلوں کی معلومات تک رسائی نہیں ملتی پھر تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ عوام میں شعور نہیں۔ عوام میں تو شعور ہے بس انہیں ایک دفعہ اٹھنا ہے۔ اٹھنے سے پہلے معاملے کو سمجھنا ہے پھر بہترین پارٹی کے ساتھ مل کر اپنے حقوق حاصل کرنے ہیں۔ یہی نظام درست ہے۔