جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے خیبر پختون خوا باجوڑ سے حکومت مخالف تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بجا طور پر وزیر اعظم عمران خان سے استفسار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں ریاست مدینہ قائم کرنے کا دعویٰ کیا کر تے تھے۔ مگر اب امریکا اور برطانیہ کے نظام ِ حکومت کے گن گا رہے ہیں۔ اور اس عزم کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان میں بھی اسی نظام کی برتری اور سرپرستی کے خواہش مند ہیں۔ اس پس منظر اور پیش منظر میں سراج الحق کا یہ سوال کہ وہ پاکستان میں کیا کر رہے ہیں۔ پوری قوم کا ترجمان ہے۔ وزارت عظمیٰ پر جلوہ افروز ہونے سے قبل خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ برسر اقتدار آئے تو ایسا سیاسی سونامی لائیں گے جو کرپشن کو بہا لے جائے گا۔ اور سارے بد عنوان منہ چھپاتے پھریں گے۔ قوم کو لوٹنے والے جیلوں میں سر جھکائے بیٹھے ہوں گے۔ مگر جب برسر اقتدار آئے تو ملک و قوم کو لوٹنے والوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر بنی گالا کا مہمان بنا لیا۔ اور راجا اندر بن کر قوم کے لیے اپنے لاڈلوں کو معزز اور محترم بنا ڈالا خان صاحب سونامی تو لائے مگر کرپشن اور بدعنوانی کو غرق کرنے کے بجائے ملک و قوم کا بیڑا غرق کر دیا۔ یہ کیسا مذاق ہے کیسی سنگ دلی ہے کہ خان صاحب اپنے لاڈلوں اور چہیتوں کو پیار سے مافیا کہتے ہیں۔ ان کو آٹے چینی اور دیگر اشیاء ضروریات کا بحران پیدا کرنے پر شاباشی دیتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی نے وزیر اعظم عمران خان کو باور کروایا ہے کہ ان کا سونامی گزر چکا ہے اب عوامی سونامی آنے والا ہے اور ان کی حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا اور خان صاحب پناہ کی تلاش میں در بدر کی خاک چھانتے پھریں گے۔ ہم بہت جلد اسلام آباد کو آباد کرنے والے ہیں۔ مگر ہمارا دھرنا مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے مختلف ہو گا۔ اکثر مبصرین استفسارکرتے ہیں کہ جماعت اسلامی ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ساتھ کیوں نہیں دے رہی ہے۔ وہ تنہا حکومت کا مقابلہ کیسے کرے گی۔ بلکہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی ڈفلی پر حکومت کو تگنی کا ناچ نہیں نچا سکتی۔ جواباً کہا گیا ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل جماعتیں ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں۔ یہ لوگ قوم کے لیے نہیں اقتدار کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم قوم کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک کھائی ہے اور دوسری کنواں۔ دونوں ہی قوم کے لیے باعث خطرہ ہے۔ یہ لو گ قوم کو خوش کرنے کے بجائے بھارت کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف تو ان سے بھی آگے نکلنے کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہے۔ بھارتی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے لیے 100ملین روپے کا تحفہ پیش کیا ہے۔ قبل ازیں مسلم لیگ ن نے 200ملین روپے کی زمین کا ہدیہ دیا تھا۔ جب کہ بھارت ہماری عبادت گاہوں کو ملبہ بنا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے توہین عدالت کی مرتکب خاتون کو جیل سے نکال کر یورپ کے حوالے کر دیا ہے۔ اور جب اس معاملے میں استفسار کیا گیا تو کہا ہم پر دبائو تھا۔ مجبوراً آسیہ کو رہا کرنا پڑا۔ اس پس منظر میں ریاست مدینہ کا دعویٰ ایک اذیت ناک مذاق ہی لگتا ہے۔ میاں نواز شریف نے توہین عدالت کے مرتکب سلمان تاثیر کو جہنم رسید کرنے والے مرد مومن ممتاز قادری کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا دیا تھا۔ اب خود لٹکے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان مہنگائی اور بے روزگاری کے حق میں دلائل پر دلائل دیے جا رہے ہیں۔ اور دلائل بھی ایسے بھونڈے اور مضحکہ خیز ہیں جو سرکس کا جوکر ہی دے سکتا ہے۔ خان صاحب اپنی نا اہلیت کا ملبہ پیش رو حکومتوں پر ڈال کر بغلیں بجا رہے ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ سابق حکومتیں خود غرض تھیں لوٹ مار ان کا شیوا تھا۔ ملک و قوم سے مخلص بھی نہ تھی۔ مگر آپ بھی تو انہی کے نقش و قدم پر رواں دواں ہیں بلکہ سر پٹ دوڑ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے ترجمانوں اور حامیوں کی باتیں اور تبصرے سن سن کر قوم کے کانوں سے لہو رسنے لگا ہے۔ اور لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ عمران خان اور میاں نواز شریف کے درمیان نورا کشتی ہو رہی ہے۔ اقتدار کے خاتمے پر انہیں بھی آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی ضرورت پڑے گی۔ نظریہ ضرورت کی طرح سہولت کاری بھی سیاست دانوں کی ضرورت بن چکی ہے۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ ملک و قوم کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر مافیا نے ان کے ہاتھ پائوں باندھ رکھے ہیں۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر آپ وزار ت عظمیٰ کی گدی پر ایلفی لگائے کیوں بیٹھے ہیں۔ قوم کی جان کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ آپ فطرتاً اذیت پسند ہیں اور ایذا رسانی آپ کے لیے باعث سرور ہے اور جہاں تک مافیا کے دبائو کا تعلق ہے اسے آدھا سچ ہی کہا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ جس مافیا کا رونا آپ رو رہے ہیں۔ وہ تو آپ کو خوشامدکی لوریاں سناتے ہیں۔ جسے سن کر آپ سکون کی نیند سوتے ہیں۔