افغانستان اور عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کو انخلا کے لیے تیار رہنے کا حکم

82

کراچی( رپورٹ:مسعود ابدالی)افغانستان اور عراق سے امریکی فوج کے انخلا کی خبروں میں تسلسل نظر آرہاہے۔گزشتہ ہفتے قائم مقام امریکی وزیر دفاع کرسٹوفر ملرنے فوج کے نام ایک یادداشت عام یا Memoمیں کہا تھاکہ افغانستان میں القاعدہ کی شکست نوشتہ دیوار ہے اور اب امریکی جوانوں کے گھر واپس آجانا چاہیے۔ 55 سالہ کرنل ملر افغانستان اور عراق میں کمپنی کمانڈر رہ چکے ہیں۔ اپنے میمو میں کرنل ملرنے کہا کہ مجھ سمیت بہت سے جوان طویل جنگ سے اکتا چکے ہیں تاہم امریکی فوج کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے کہ اب عسکری کردار قیادت سے معاونت میں تبدیل ہورہا ہے۔ میمو میں کہا گیاکہ جنگ کا خاتمہ معاہدے پر ہوتا ہے اور اس حوالے سے پیشرفت تسلی بخش ہے۔ واشنگٹن کے عسکری ماہرین نے میمو کو افغانستان و عراق سے مکمل فوجی انخلا کا عندیہ قراردیاتھا۔ پیرکو سی این این نے انکشاف کیاکہ فوری انخلا کے لیے عراق اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں سرکاری حکم ایک دودن میں جاری ہونے کی توقع ہے۔ اب تک یہ بات واضح نہیں کہ تمام فوجیوں کو واپس بلایا جارہا ہے یا یہ جزوی انخلا ہوگا۔ پینٹاگون (امریکی وزارت دفاع) کے ذرائع کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 5000 سے گھٹا کر 2500 کردی جائے گی جبکہ عراق سے 500 فوجی واپس بلائے جارہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے 2016 ء کی انتخابی مہم کے دوران افغانستان اور عراق میں عسکری مہم جوئی کو احمقانہ اور غیر ضروری قرار دیاتھا۔ اسی بنا پربش خاندان صدر ٹرمپ سے اب تک ناراض ہے۔ ڈانلڈ ٹرمپ افغانستان کو امریکی فوج کے لیے دلدل اور امریکی خزانے پر بھاری بوجھ سمجھتے ہیں۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کو طالبان کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھانے کا حکم دیا۔تازہ دم اضافے دستوں کے ساتھ افغانستان میں تعینات کمانڈروں کو فیصلے کی کھلی آزادی دے دی گئی۔ امریکی جرنیلوں کو شکوہ تھا کہ سابق صدر اوباما نے ڈرون ہدف سمیت تمام اہم اختیارات اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے اور بندھے ہاتھوں فیلڈ کمانڈروں سے اعلیٰ کارکردگی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اضافی نفری اور hand Freeکا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی فضائیہ نے سارے امریکا کو اپنا ہدف بنا لیا اور ایک مہینے میں اوسطاً 500حملے کیے گئے۔وحشیانہ بمباری سے شہری آبادیاں برباد اور قبرستان تو آباد ہوئے لیکن مزاحمت کاروںسے ایک انچ زمین بھی نہ چھینی جاسکی۔ادھرصدر ٹرمپ عسکری کارکردگی کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کررہے تھے۔انہیں جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ طالبان کو کچلنا امریکی فوج کے بس کی بات نہیں۔صدر ٹرمپ کاروباری آدمی ہیں چنانچہ وہ اخراجات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ افغانستان میں فوج رکھنے کا خرچہ70 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے تو وہ آپے سے باہر ہوگئے۔قومی سلامتی کے لیے صدر کے مشیر جنرل مک ماسٹر نے جب افغانستان میں امریکی فوج رکھنے کی تزویراتی اہمیت بیان کی تو امریکی صدر نے جنرل مک ماسٹر کو بھی کھری کھری سنادی۔ جنرل مک ماسٹر پی ایچ ڈی ہیں اور ویتنام جنگ پر ان کاتحقیقی مقالہ امریکی کی فوجی اکیڈمیوں میں پڑھا یا جاتا ہے۔ اسی بنا پر جنرل مک ماسٹر’دانشور سپاہی’ کہلاتے ہیں۔اپنی توہین پر جنرل مک ماسٹرنے تلملا کر استعفا دے دیا۔ صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ انہیں صدر ٹرمپ نے برطرف کیا تھا۔ گزشتہ برس کے آغاز سے مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا اور بات چیت کے درجنوں اعصاب شکن دور کے بعد 29 فروری کو ایک معاہدہ طے پاگیا جس کے تحت 8600فوجیوں کے فوری انخلااور 21 مہینوں میں تمام امریکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی کا وعدہ کیا گیا۔ جواب میں طالبان نے افغان سرزمین کو امریکا یا کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی ضمانت کے ساتھ پْر تشدد کارروائیوں میں کمی اور کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ 2ماہ قبل صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کو کرسمس (25 دسمبر) سے پہلے گھر واپس بلانا چاہتے ہیں۔ امریکا کے جنگجو حلقوں نے اس فیصلے کو ہتھیار ڈالنے سے تشبیہ دیتے ہوئے سخت مخالفت کی اور تو اور پاکستانی وزیراعظم کو بھی عجلت میں انخلا کا فیصلہ غیر دانشمندانہ محسوس ہوا۔ انخلا کے فیصلے پر صدر ٹرمپ کو خود ریپبلکن پارٹی کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ سینیٹ کے قائد حزب اختلاف سینیٹر مچ مک کانل نے کہا کہ دہشت گرد انتہا پسندوں کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ جنرل مک ماسٹر نے بھی فوجی انخلا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے افغانستان کے 5 فیصد طالبان خوش اور 95 فیصد عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔ اس بیان سے اندازہ ہوا کہ دانشور جرنیل تزویراتی امور پر تو بلاشبہ بہت عمدہ گرفت رکھتے ہیں لیکن ان کی ریاضی بہت کمزور ہے۔امریکی سراغرساں اداروں کا کہناہے کہ 70فیصد دیہی اور نصف سے زیادہ شہری افغانستان طالبان کی گرفت میں ہے اور نصف 5 نہیں بلکہ 50 فیصد ہوتا ہے۔