گھروں میں محدود رہنے والی سعودی خواتین ذہنی دباؤ کا شکار

154

جدہ: سعودی خواتین ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں اور موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان نے گھروں میں محدود سعودی خواتین کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے کے لیے ان پر ملازمتوں اور کاروبار کے دروازے کھول دیئے ہیں۔

سعودی خواتین پر ڈرائیونگ کرنے کی لگی پُرانی پابندی بھی ہٹا لی گئی ہے اور ان اقدامات سے سعودی خواتین کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور وہ مختلف شعبوں میں شہرت کما رہی ہیں جبکہ اس کے باوجود سعودی خواتین کی ایک بڑی گنتی ڈپریشن کا شکار ہے۔
کنگ فیصل ریسرچ سینٹر کی بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق ڈاکٹر یاسمین کا کہاٹ ہےکہ سعودی خواتین مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں مگر کس حد تک اس کا صحیح اندازہ نہیں۔

بین الاقوامی محقق ڈاکٹر یاسمین کا کہای تھا کہ 34 فیصد سعودی شہریوں کو زندگی کے کسی نے کسی مرحلے میں کسی نہ کسی حد تک نفسیاتی مرض لاحق ہوجاتا ہے اور ہر تیسرا سعودی عرب میں رہنے والا شہری اپنی زندگی کے کسی دور میں کسی نہ کسی حد تک نفسیاتی مسائل کا شکار رہا ہوتاہے۔

ڈاکٹر یاسمین کی تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ نفسیاتی مرض وبا کی شکل میں تمام ممالک میں پھیلا ہوا ہے مگر اس کے اسباب کیا ہیں معلوم نہیں ہوسکے جبکہ سعودی عرب میں بھی یہ وبا موجود ہے مگر یہ کس حد تک ہے اس کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔

محقق کے مطابق کنگ فیصل ریسرچ سینٹر کے تحت سعودی عرب میں نفسیاتی صحت عامہ اور ڈپریشن پر تحقیق ہو رہی ہے اور اس مقصد کے لیے مقامی اور عالمی ماہرین تحقیقی کام کر رہے ہیں جس کے تفصیلی نتائج مکمل ہونے پر جاری کیے جائیں گے۔
ابتدائی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ 40 فیصد سعودی نوجوان کسی نہ کسی حد تک نفسیاتی مسائل کا شکار رہے ہیں جبکہ اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ خواتین میں ڈپریشن کی شرح 8.9 فیصد ہے اور مردوں میں اس کی شرح 3.1 فیصد ہے، جو ایک تشویش ناک بات ہے۔

سعودی عرب کے اصلاح پسند موجودہ ولی عہد اور خواتین کے حقوق اور ان کی آزادیوں کے علم بردار محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی خواتین کو برسوں محرومیوں کا سامنا رہا ہے جبکہ مملکت میں ہونے والی مختلف شعبوں میں ترقی کا حوالہ دیتے ہوئے ان میں خواتین کے کردار کا اعتراف کیا۔

سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ آج سے کچھ عرصہ قبل مملکت میں خواتین کو سفر کی آزادی نہیں تھی، وہ کھیلوں، ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی تھیں اور نہ ہی انہیں ڈرائیونگ کی اجازت تھی اور کئی دوسرے شعبوں میں خواتین کو کام کرنے کی آزادی نہیں تھی اور بہت سے کاموں میں خواتین کے لیے محرم کی موجودگی لازمی قرار دی جاتی تھی جس کی وجہ سے خواتین نے دسیوں برس محرومیوں کا سامنا کیا مگر آج خواتین بہت سے شعبوں میں با اختیار ہیں۔