اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری نے کہاہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جس کے باعث اسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ۔برطانوی نشریاتی ادارے سے خصوصی گفتگو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ اگر حکومت مظاہرین کے ساتھ معاہدے پر عملدرآمد نہ کر پائی تو کیا قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے؟ تو نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ فریقین کے درمیان ہے اس کی قانونی حیثیت تو کوئی نہیں ہے اور کوئی فریق کیوں اس معاہدے کو لے کر عدالت میں جائے گا۔نورالحق قادری نے کہا کہ اگر فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا فیصلہ پارلیمنٹ سے ہو تو زیادہ بہتر ہے،فرانسیسی مصنوعات پر پابندی سے متعلق پاکستانی حکومت ملک بھر کے چیمبرز آف کامرس سے بات کرے گی۔تحریک لبیک سے مزاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کے سربراہ اور وفاقی وزیر نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ دھرنا ختم کرنے کے لیے سب سے بڑا ڈیڈ لاک فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کو پورا نہ کرنا تھا۔ مذاکرات کے دوران تحریک لبیک کے نمائندہ وفد کو بتایا گیا کہ پاکستان سے فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ پورا کرنے سے بین الاقوامی سطح پر ملک کے لیے مسائل کھڑے ہوں گے اور اس کے علاوہ یورپی ملکوں میں موجود پاکستانیوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ فرانس میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے خلاف حکومت کو تحریک لبیک کے احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ مسئلہ صرف احتجاج کے طریقہ کار پر تھا۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کا کوئی نمائندہ تو موجود نہیں تھا البتہ ان کی طرف سے یہ رائے دی گئی تھی کہ اس احتجاج کو زیادہ دیر تک نہیں چلنا چاہیے اور اسے جلد از جلد ختم کرایا جائے کیونکہ کورونا اور موسم کی شدت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا خطرہ بھی موجود ہے۔