واپسی کا مخمصہ

265

تہذیب حافی کے ایک خوبصورت شعر سے آغاز کرتے ہیں:
بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا
بزم جاناں میں ہوں یا نہ ہوں تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کی نشست مخصوص تھی۔ عمران خان کے بعد ان ہی کی اہمیت تھی۔ ان ہی کے پاس طاقت تھی۔ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا۔ جہانگیر ترین عمران خان کی تندو تیز اور جارحانہ سیاست میں مفاہمت کی علامت تھے۔ وہ ساتھ لے کر چلنے کا ہنر جانتے ہیں۔ تحریک انصاف میں زیادہ تر الیکٹ ایبلز کی شمولیت ان ہی کی کاوشوں اور لین دین کا نتیجہ تھی۔ وہ تحریک انصاف کی اے ٹی ایم مشین تھے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے سب سے زیادہ سرمایہ کاری انہوں نے ہی کی تھی۔ عدالت عظمیٰ سے نااہلی بھی انہیں عمران خان سے دور نہ کرسکی۔ الیکشن میں سلیکشن کے بعد حکومت سازی کے مرحلے میں بھی وہی پیش پیش تھے۔ وفاقی کابینہ اور پنجاب میں حکومت کی تشکیل بھی ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ خیبر پختوان خوا اور بلوچستان کے محاذ پر بھی وہی سرگرم تھے۔ ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ تھا اور نہ وہ پارلیمنٹ کا حصہ تھے لیکن وزیراعظم عمران خان کے سب سے قریب وہی تھے۔ لیکن پھر چینی اسکینڈل انہیں لے بیٹھا۔ عمران خان اور ان کے تعلقات میں تنائو پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ ان کے خلاف تحقیقات شروع ہوگئیں۔ چینی اسکینڈل انہیں لے کرہی نہیں بیٹھا، برطانیہ لے کر اڑ گیا۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شاید ہی وطن واپس آئیں لیکن اب وہ اچانک وطن واپس آگئے۔ وہ جہانگیر ترین جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات خود تحریک انصاف کے وزرا لگا رہے تھے ائر پورٹ سے اس طرح گھر روانہ ہوئے جیسے حج کرکے آئے ہیں۔ کیا ان کی واپسی کسی گارنٹی اور ڈیل کا نتیجہ ہے؟ یہ اور نجانے کتنے مخمصے ہیں جنہیں ان کی واپسی نے جنم دیا ہے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے مخمصے کو سمجھ لیجیے۔ مخمصہ کیا ہوتا ہے۔
ایک شاگرد استاد سے الجھ پڑا۔ استاد کے مسلسل سمجھانے کے باوجود اسے مخمصے کا مطلب سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ استاد نے انداز بدل بدل کر سمجھایا لیکن شاگرد کی یہی گردان تھی ’’استاد جی سمجھ میں نہیں آرہا‘‘ استاد نے تنگ آکر کہا ’’اچھا میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں تب ممکن ہے تم مخمصے کا مفہوم سمجھ جائو۔ ایک
سڑک پر باپ بیٹا موٹر سائیکل پر جارہے تھے۔ ان کے آگے ایک ٹرک جارہا تھا جس پر فولادی چادریں لدی تھیں۔ ٹرک سے اچانک ایک فولادی چادر اُڑی اور سیدھی باپ بیٹے کی گردن پر آرہی۔ دونوں کی گردنیں کٹ گئیں۔ لوگ کٹے ہوئے سر اور دھڑ لے کر ایک قریبی اسپتال لے گئے جہاں ایک قابل ترین سرجن موجود تھا۔ سرجن نے سات گھنٹے طویل آپریشن کے بعد دونوں کے سر دھڑ سے جوڑدیے۔ باپ بیٹا دونوں زندہ بچ گئے۔ دو مہینے تک وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے۔ گھر والوں کو بھی ملنے اور دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ دو ماہ بعد وہ گھر آئے تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ سرجن نے باپ کا سر بیٹے کے دھڑ پر اور بیٹے کا سر باپ کے دھڑ پر لگادیا تھا‘‘۔ شاگرد منہ کھولے حیرت سے استاد کی بات سن رہا تھا۔ استاد نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’مسئلہ پیدا ہوگیاکہ اب بیٹے کی بیوی شوہر کے دھڑ کے ساتھ کمرے میں رہے یا شوہر کے سر کے ساتھ۔ اگر وہ شوہر کے سر کے ساتھ رہتی ہے تو دھڑ تو باپ جیسے سسر کا ہوگا۔ دوسری طرف یہ مسئلہ کہ ماں اگر شوہر کے سر کے ساتھ رہتی ہے تو دھڑ بیٹے کا ہوگا۔ اگر شوہر کے دھڑکے ساتھ رہتی ہے تو سر بیٹے کا ہوگا۔ صورت حال انتہائی پریشان کن ہوگئی تھی۔ بیٹا اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنا چاہتا تو وہ کہتی مجھے سسر جی کے ہاتھوں سے شرم آتی ہے۔ سسر بیوی کے پاس اس لیے نہیں پھٹک سکتے تھے کہ بیٹے
کے دھڑ سے ماں کی حرمت پامال ہوتی تھی‘‘ ایسے میں کسی نے مشورہ دیاکہ دونوں اپنی اپنی بیویوں کو طلاق دے دیںاور ازسر نو نکاح کرلیں تاکہ دھڑ حلال ہوجائیں‘‘۔ شاگرد پوری توجہ سے سن رہاتھا اور پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا۔ استاد نے شاگرد سے پوچھا ’’تم بتائو کہ اب ماں کس سے طلاق لے بیٹے کے دھڑ سے یا شوہر کے دھڑ سے۔ ادھر بہو کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ شوہر کے سر سے طلاق لے یا سسر کے دھڑسے‘‘ شاگرد بولا ’’استادجی میرا تو دماغ بند ہورہا ہے مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب کیا کیا جائے‘‘ استاد بولے ’’بیٹا بس اسی کیفیت اور صورتحال کو مخمصہ کہتے ہیں۔ آگئے نا مخمصے میں‘‘۔
جہانگیر ترین کی واپسی کے مخمصے نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اب جب کہ پی ڈی ایم نے عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے طبل جنگ بجادیا ہے، مارچ 2021 میں سینیٹ کے الیکشن ہورہے ہیں، حکومت کے اتحادی ایک ایک کرکے عمران خان سے دور ہورہے ہیں، اختر مینگل ساتھ چھوڑ چکے ہیں، چودھری برادران ناراض ہیں، جی ڈی اے اور ایم کیو ایم بھی حکومت سے نالاں ہیں، ایسے میں جہانگیر ترین ایسی شخصیت ہیں جن کے پی ڈی ایم سے لے کر حکومت کے ناراض اتحادیوں تک سب سے اچھے مراسم ہیں، وہ حکومت اور اس کے مخالفین اور اتحادیوں کے مابین ایک مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کیا انہیں اس کردار کی ادائیگی کے لیے واپس لایا گیا ہے؟ کیا وہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اور وزیراعظم عمران خان ان کے ساتھ دوبارہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا دونوں شخصیات کے درمیان اعتماد کا رشتہ دوبارہ بحال ہوسکتا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے واپس آئے ہیں۔ جہانگیر ترین کو این آر او دینے کا پہلا مقصد چینی بحران سے نمٹنا ہے۔ ’’تم ہی نے درد دیا ہے تم ہی دوا دینا‘‘ علاج بالمثل والی حکمت عملی ہے۔ یہ شوگر کارٹیل کے آگے سرنڈر کرنے والی بات ہے۔ جہانگیر ترین کی ملیںملک کی شوگر پیداوار کا 25فی صد پیدا کرتی ہیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کی وجہ سے تحریک انصاف کو جو چیلنج درپیش ہے جہانگیر ترین ہی واحد موثر شخصیت ہیں جو اس چیلنج سے عہدہ برآہونے میں حقیقی معنوں میں حکومت کی مدد کرسکتے ہیں۔ وہ نہ صرف اتحادی جماعتوں کو حکومت سے جوڑے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان فصلی بٹیروں کو بھی تحریک انصاف کی چھتری سے اڑنے سے روک سکتے ہیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی پرواز متعین کرتے ہیں۔ اس معاملے میں جہانگیر ترین سرمایہ کاری سے بھی گریز کرنے والے نہیں۔ شاہ محمود قریشی بھی ایسا کرسکتے ہیں لیکن ان کا مزاج سرمایہ کاری سے مطا بقت نہیں رکھتا۔ وہ دوسروں پر خرچہ کرنے والے آدمی نہیں۔ جہانگیر ترین کی یہ سرمایہ کاری ن لیگ کے اراکین اسمبلی توڑنے میں بھی کا میاب ہوسکتی ہے۔ جہانگیر ترین کو نہ صرف گرتی ہوئی حکومت کو سہارا دینے کے لیے واپس لایا گیا ہے بلکہ اپوزیشن کو کمزورکرنا بھی ان کے واپسی کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
عمران خان کی بد نصیبی یہ ہے کہ ان کا ہر بول ان کے آگے آرہا ہے۔ وہ قول وفعل کے تضاد کی علامت بن گئے ہیں۔ ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ یہ عمران خان کا سب سے بلند آہنگ دعویٰ تھا۔ جہانگیر ترین کی واپسی ’’مدر آف این آراو‘‘ ہے۔ ان کی واپسی سے تحریک انصاف میں اینٹی ترین فیکٹر نہ صرف کمزور ہوگا بلکہ کچھ افراد کو رخصت پر بھی جانا پڑے گا۔ جہانگیر ترین کی واپسی اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی کی علامت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا احساس ہے کہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ عمران خان کی اپوزیشن کو روز ایک نئی گالی دینے کی حکمت عملی ناکام ہوگئی ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کے خلاف نیب کو بھی آزماکر دیکھ لیا ہے اور ریاستی اداروں کو بھی۔ ان تمام اقدامات کا نتیجہ ان کی حکومت کے ضعف اور اپوزیشن کے اتحاد کی صورت میں نکلا ہے۔ جہانگیر ترین اس صورتحال کو ریورس کرنے لیے واپس لائے گئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مہروں کو اسی طرح استعمال کرتی ہے۔ یہی روایت ہے۔