جناب سعود ساحر اور تحریک ختم نبوت

253

سعود ساحر صاحب ایسے کالم نگار تھے جن کا کالم ہم ہمیشہ شوق سے پڑھتے تھے۔ خاص طور سے اس وقت جب وہ جسارت میں شائع ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک لمبا عرصہ صحافت کے میدان میں گزارا اور شاہ سواروں کے شاہ سوار بن کر رہے۔ جیسا کہ اُن کے بارے میں مختلف مضامین اور کالم میں بتایا گیا کہ انہوں نے صحافت کے دشت میں فروری 1958ء میں قدم رکھا اور 82 سال کی عمر میں صحافت کے ساتھ دنیا کو بھی چھوڑ بیٹھے۔ یعنی انہوں نے تقریباً 62 سال اس دشت کی سیاحی کی۔ پاکستان کی سیاست کے اہم واقعات کو انتہائی قریب سے دیکھا اور اُن پر اپنے قلم سے مہر لگائی۔ آمرانہ خوف دہشت کے انداز دیکھے اور سہے لیکن قلم کو سربلند رکھا۔
اُن کے کارزار صحافت میں معرکے اپنی جگہ لیکن ایک اہم قلمی کام اُن سب پر بھاری ہے۔ وہ ہے تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے تاریخی دستاویز کی اشاعت۔ جناب سعود ساحر نے تحریک ختم نبوت کے بارے میں اپنے مشاہدات کو اپنے خاص انداز میں تحریر کیا ہے۔ یہ مسلمانوں کی صد سالہ جدوجہد جو قادیانیوں احمدیوں کے خلاف کی گئی مکمل جامع منفرد اور تاریخی دستاویز ہے۔ اس کتاب کا نام ’’تحریک ختم نبوت آغاز سے کامیابی تک‘‘ ہے۔ یہ روزنامہ امت میں ستمبر 2014ء میں قسط وار شائع ہوئی، بعد میں 2016ء میں اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ 1974ء میں قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث کو ہر فریق کے دلائل کے ساتھ کتاب کا حصہ بنادیا گیا۔ 7 ستمبر 1974ء پاکستان کی تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے۔ جب قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اور اقلیت قرار دیا گیا۔ یہ پاکستان بننے سے قبل برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی قادیانیوں کے خلاف کی گئی ایک طویل جدوجہد میں کامیابی کا دن تھا۔ آج ہم نے اس دن کو بھلادیا ہے۔ حقیقت میں یہ دن ہر سال پورے جوش و خروش سے منایا جانا چاہیے۔ تاکہ تمام پاکستان بلکہ پوری امت کے نوجوانوں کو بار بار یاد دہانی ہوتی رہے۔
فتنہ ٔ قادیانیت ایک ایسا پودہ تھا جس کا بیج انگریز نے تخلیق کیا اور حکومتی سطح پر اس کی آبیاری کی۔ یہ ختم نبوت کے ایمانی تصور پر ضرب کاری تھی۔ جس کا بنیادی مقصد اسلام کے پانچ اصولوں میں سے جہاد کے اصول کو معدوم کرنا تھا۔ کیوں کہ اسلام دشمن قوتیں اسے اپنے لیے خطرہ تصور کرتی تھیں۔ کتاب میں سعود ساحر لکھتے ہیں کہ فتنہ ٔ قادیانیت کوئی معمولی مسئلہ نہ تھا اور نہ اس کا توڑ آسان تھا۔ برصغیر میں مسلمانوں کی چار نسلیں اس کے خلاف جدوجہد کرتے گزر گئی تھیں، لیکن کوئی نتیجہ خیز فیصلہ نہیں کروا پائی تھیں کیوں کہ انگریز کی حکمرانی تھی، وہ کہتے ہیں کہ میرے والد ختم نبوت تحریک کے رہنما سید عطا اللہ بخاری کے نقش قدم گنتے تھے۔ یعنی ختم نبوت کے علم برداروں میں اُن کے خاندان کے بزرگ شامل تھے۔ پاکستان بننے کے پانچ سال بعد ہی قادیانی پاکستان میں کلیدی عہدوں پر براجمان ہوگئے۔ ان کی ہمت اور حوصلہ اتنا بڑھا کہ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر مسلمان طلبہ سے غنڈہ گردی کا واقعہ پیش آیا۔ ہوا یہ کہ ریل گاڑی ربوہ پر رُکی تو قادیانیوں نے اپنا لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا۔ بوگی میں سوار طلبہ نے ختم نبوت زندہ باد اور قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے۔ یہ طلبہ جمعیت کے تھے جو سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے پشاور جارہے تھے۔ یہ طلبہ جب واپس ہوئے تو ربوہ اسٹیشن پر ہزاروں قادیانی بندوقوں، تلواروں اور آہنی مکوں سے مسلح ہو کر گاڑی پر حملہ آور ہوئے اور طلبہ پر اس قدر تشدد کیا کہ اکثریت خونم خون ہوگئی۔
یہ وہ نکتہ تھا جس کے بعد قادیانیوں کے خلاف تحریک کا اعلان ہوا۔ پورے ملک میں ہڑتالوں، مظاہروں، جلسے، جلوس اور قادیانیوں کا سوشل بائیکاٹ ہوا۔ 1953ء کی اس تحریک ختم نبوت میں سعود ساحر صاحب کے بڑے بھائی نوجوانی میں جیل گئے۔ تحریک نے عدم تشدد کے ذریعے تحریک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے تحت ہر روز عصر اور ظہر کے درمیان وقفے میں پانچ رضاکاروں کو گرفتاری دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ ایک دن مسجد سے اعلان ہوا کہ مائیں بچوں کو مسجد بھیجیں کیوں کہ رضاکار دستیاب نہیں ہیں۔ چناں چہ سعود ساحر کہتے ہیں کہ والدہ نے بھائی حکیم محمود احمد کو غسل کے بعد سفید لباس پہنایا اوپر ہاتھ سے بنا ہوا گوٹے کا ہار پہنایا اور دعائوں کے ساتھ مسجد روانہ کیا جہاں انہوں نے گرفتاری دی۔ یہ تحریک کی ابتدا کی بات ہے، جوں جوں تحریک زور پکڑتی گئی انتظایہ اور پولیس کی سختی بڑھتی چلی گئی۔ اور آخر لاہور میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ صرف لاہور میں ایک ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے۔ اسی مارشل لا کے دوران میں مولانا سید ابواعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی اور دونوں رہنمائوں کو سینٹرل جیل لاہور کی پھانسی کی کوٹھڑیوں میں قید کردیا گیا۔
اصل میں قادیانی پاکستان کے قیام کو اپنے لیے ایک بہترین موقع تصور کرتے تھے۔ لہٰذا وہ اپنی مرکزی قیادت کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگئے۔ چنیوٹ کے قریب اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا، جہاں اپنا ربوہ انڈیا کے طرز پر بسایا، یہ سارا علاقہ مسلمانوں کی دسترس سے دور رکھا، یعنی یہ ایک ممنوع علاقہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سرظفر اللہ جو قادیانی تھا اس نے قادیانیوں کی بھرپور سرپرستی کی۔ انہیں حکومت کے ہر شعبہ میں جگہ دی یہاں تک پالیسی ساز اداروں اور بڑے بڑے مناصب پر اُن کو بیٹھایا۔ تقسیم پاکستان کے بائونڈری کمیشن میں بھی سرظفر اللہ کا کردار پاکستان دشمنی کا رہا۔ یہ ایک معما ہے کہ بائونڈری کمیشن میں وہ موجود تھے اور انہوں نے ٹھنڈے ٹھنڈے ہندوستان کو کشمیر میں داخلے کا واحد راستہ دے دیا۔ قیام پاکستان کے بعد فوراً قادیانیوں نے سازشوں کا آغاز کیا اور وزارت خارجہ، وزارت خزانہ اور دوسرے اہم محکموں پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے پیروکاروں کو زیادہ سے زیادہ سرکاری ملازمت اختیارکرنے کے لیے کہا۔ خاص طور سے فوج، پولیس، خزانہ، کسٹم انتظامیہ، اکائونٹس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں چھا جانے کی ہدایت کی گئی۔ سوچیے ابھی پاکستان کو بنے ایک سال ہوا کہ بانی پاکستان کا انتقال ہوگیا اور اگلے دو سال بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کردیا گیا۔ یہ صورت حال تھی جس کا فائدہ اُٹھا کر انگریزوں کے کاشت کردہ پودے نے سر اُٹھانا شروع کیا۔ لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بنے اور اختیارات بیورو کریسی کے کارندے گورنر جنرل غلام محمدکے ہاتھ میں آگئے۔ یہ صورت حال قادیانیوں کے لیے بہترین موقع کی صورت میں ہاتھ آئی، قادیانی وزیرخارجہ سرظفر اللہ خان نے بھرپور انداز میں پیر پھیلانے شروع کیے، وزارت خارجہ میں بڑی تعداد میں قادیانیوں کو بھرتی کیا۔ جنہیں مختلف ممالک میں سفارتی ذمے داریاں دی گئیں۔ جہاں قادیانیوں نے اپنے تبلیغی مشن قائم کیے۔
سعود ساحر اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ قادیانیوں کے اتنے پر پرزے نکل آئے تھے کہ ممبئی 1952ء میں ظفر اللہ خان نے جہانگیر پارک کراچی میں قادیانیوں کے جلسہ عام سے خطاب کا اعلان کیا۔ شہر بھر کی مساجد میں احتجاج کیا گیا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے ظفر اللہ خان کو منع کیا لیکن ظفر اللہ نے ماننے سے انکار کیا اور جلسے میں گئے۔ خواجہ ناظم الدین اس حکم عدولی پر خاموش رہے۔ بعد میں انکوائری کمیٹی میں شہادت دیتے ہوئے کہا کہ ’’امریکی وزیر خارجہ نے وزیراعظم کو یعنی اُن کو یہ تاثر دیا تھا کہ ظفر اللہ خان کو راضی نہ رکھا گیا تو امریکا پاکستان کی مدد نہیں کرے گا۔ حتیٰ کہ گندم مہیا کرنا بھی مشکل ہوجائے گا اور مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ہماری مدد بھی نہیں کرے گا‘‘۔ یوں برطانیہ اور امریکا کی سرپرستی میں قادیانیوں کا زہریلا بیج لگایا بھی گیا اور اُسے پھلنے پھولنے کا موقع بھی فراہم کیا گیا، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے کس سادگی میں قادیانیوں کو نوازتے رہے۔
ساری جدوجہد گرفتاریاں اور خون بہنے کے باوجود 53ء میں تحریک ختم نبوت کامیابی حاصل نہ کرسکی اس کی وجہ تشدد، سازشیں، کم فہم اور کمزور سیاست دانوں کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی آرزو اور امریکی دبائو تھی۔ بعد میں ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک آئین قانون اور قومی وقار کو مذاق بناتے رہے۔
سعود ساحر لکھتے ہیں۔ ’’اس وقت ملک کی اقتصادیات پر مرزا قادیانی کا پوتا ایم ایم احمد براجمان تھا، فضائی اور بری فوج میں قادیانی اعلیٰ عہدوں پر قابض تھے۔ دستاویزات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سرکار نے ذرائع ابلاغ کو قادیانیوں کا تابع بنا کر رکھ دیا تھا۔ فوج میں مرزائیوں کی بھرتی کی جارہی تھی، ربوہ کا روزانہ الفضل فوج میں بھرتی کے وہ اشتہارات شائع کرتا جس شعبے میں بھرتی کے انچارج قادیانی افسر ہوتے۔ ایسا ایک سیل قائم تھا جو مرزائی جرنیلوں کی معرفت ربوہ کے ماتحت تھا۔ سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ فضائیہ کے تمام اسٹیشنوں پر قادیانی انچارج تھے۔ اختر ملک ظفر چودھری، جنرل عبدالعلی کے علاوہ بے شمار قادیانی تھے جو اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچے۔ 1970ء کی جنگ میں قادیانی جنرل عبدالعلی ملک 10 کور کے کمانڈر تھے۔ گورنر جنرل غلام محمد سے لے کر یحییٰ خان تک قادیانی بڑی حد تک فوج، مالیات اور اطلاعات و نشریات کے محکموں پر قابض ہوگئے۔ اسی دور میں امریکا اور دوسری بیرونی طاقتوں کا عمل دخل بڑھا۔ ملک میں علاقائی اور لسانی کشمکش بڑھی۔ قادیانی جنرل عبدالعلی ملک اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں قادیانی جماعت کا امیر بنا۔ جب مشرقی پاکستان علٰیحدہ ہوا تو ربوہ میں چراغاں کیا گیا۔ وزارت اطلاعات کا یہ حکم تمام جرائد تک پہنچا کہ قادیانیوں کے خلاف کچھ شائع نہیں ہوسکتا۔ اس سب کے باوجود ختم نبوت کی تحریک نے ہر جبر اور ہر ہتھکنڈے کا مقابلہ کیا اور بالآخر 7 ستمبر 1974ء میں قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے تک پہنچنے میں جو جو مراحل آئے جناب سعود ساحر نے انہیں اپنی کتاب میں ایک دستاویز کی صورت میں تحریر کردیا۔ آج ہمیں اس کتاب کو پڑھنے اور پڑھانے کے لیے آگاہی دینی چاہیے، خاص طور سے نوجوانوں کو، تاکہ قادیانیوں کی سازشوں سے آگاہی حاصل ہوسکے اور پاکستان کا مستقبل محفوظ ہوسکے۔