مذہبی آدمی شاعری کیوں پڑھے

319

اکثر دیندار آدمی شاعری سے گھبراتے ہیں۔ اگر گھبراتے نہیں ہیں تو اسے اہمیت بہرحال نہیں دیتے۔ یہ رویہ بعض پہلوؤں سے حق بجانب بلکہ ضروری ہے لیکن اس کے باوجود شاعری اور دیگر ادبی اصناف کے ذوق و فہم سے محرومی اختیار کر لینا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ محرومی شخصیت میں دین داری کے کچھ ضروری عناصر کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس حد تک تو بالکل درست ہے کہ شاعری وغیرہ کے بارے میں یہ سوال ہمیشہ تازہ رہنا چاہیے کہ اس میں کوئی دینی ضرر تو نہیں ہے؟ یا یہ کہ اس کی دینی افادیت کیا ہے؟ ایک شاعری کیا، ہر ذہنی اور عملی سرگرمی کو اس سوال کا جواب پالینے کے بعد شروع کرنا چاہیے۔ ویسے بھی ان لوگوں کو یہ سوال ہر وقت اور ہر صورتِ حال میں اپنے سامنے رکھنا پڑتا ہے جن کے ذہن، اخلاق اور عمل کی تمام تر پرداخت دین کے زیرِ سایہ ہوئی ہے۔ ان کی یہ ہچکچاہٹ کہ اپنے جمالیاتی ذوق کی تربیت کرتے کرتے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ایک اخلاقی اور اعتقادی ساخت ہی مجروح ہو جائے جو تزکیہ نفس کے بلند تر مدارج تک پہنچ کر گویا انعام کے طور پر بندے کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کی حفاظت میں ذرا بھی چوک ہوجائے تو ذہن کے پاس چیزوں کو دیکھنے کا دینی تناظر نہیں رہتا اور اس کے علاوہ طبیعت کو وہ حال میسر نہیں آتا جو تمام احساسات کو اللہ سے تعلق میں کارآمد بناتا ہے۔ ان خوش نصیبوں کا یہ تذبذب ہی وہ تقویٰ ہے جس کے بغیر عمل کیا، ایمان بھی معتبر نہیں ہے۔ لیکن جس طرح تقویٰ محض ترک نہیں ہے، قبول بھی ہے، اسی طرح اس ہچکچاہٹ کا نتیجہ ہمیشہ کسی چیز کو چھوڑنے کی شکل میں نہیں نکلنا چاہیے۔ اکثر اوقات کسی شے کی طرف جانے سے پہلے محسوس ہونے والی ہچکچاہٹ اس شے میں چھپی ہوئی کسی بڑی افادیت تک پہنچنے کا سبب بن جاتی ہے۔
تو اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اگر شعور حق وباطل کے بارے میں، بنیادی اخلاق کے حوالے سے اور عبادت کے تناظر میں ایمانی طمانیت کے ساتھ یکسوئی حاصل کر چکا ہے تو پھر قلب و ذہن اور نفس و طبیعت میں رکھے گئے ذوقی مطالبات پر کان دھرنا مضر نہیں ہو گا۔ لیکن اگر شعور کا قوام ایمان کے جوہر سے نہ اٹھا ہو، اخلاقی شخصیت کی تعمیر دین کی نگرانی میں نہ ہوئی ہو اور رغبت و کراہت کا طبعی نظام اللہ کی محبت و خشیت پر نہ چل رہا ہو تو پھر ٹھیٹھ دینی علوم اور اشغال بھی مفید نہ ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ پر ایمان کو شعور کا وہ بنیادی جوہر بنایا جائے جس کی بدولت ذہن کو وہ اصولی اور مستقل موقف میسر آجاتا ہے جو چیزوں کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتا اور علم کی ہر شاخ میں اس وحدت کو قائم رکھتا ہے جو ذہن اور شے کے تعلق میں ایک مستقل شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وحدت عمل میں نہ آئے تو ذہن کی تمام سرگرمیاں ایک مہمل انتشار میں بدل جائیں اور علم کی تشکیل کا آغاز بھی نہ ہو سکے۔ اور پھر ذہن ہی نہیں، آدمی کی پوری شخصیت کی تعمیر بھی اسی اصولِ وحدت پر ہوتی ہے۔ انسان باعتبار فطرت ایسا ہے کہ کثرت سے وحدت کشید کرتا ہے اور وحدت سے کثرت۔ ہر شخص اپنی کل شخصیت کا ایک عنوان اور مقصود مقرر کر لیتا ہے اور پھر اپنی سب ذہنی اور حیاتیاتی سرگرمیوں کو اسی مقصود کے حصول میں صرف کرتا رہتا ہے۔ یہ یکسوئی ایسی ہوتی ہے کہ غلطی اور ناکامی سے بھی مجروح نہیں ہوتی۔ تو ذرا سا پہلو سے دیکھیے کہ اگر آدمی اپنے لیے ایک عنوان اور ایک مقصود متعین کر چکا ہے تو پھر زندگی میں عارضی یا دائمی اثرات رکھنے والی دیگر مشغولیتیں اس بنیادی تشخص کو مضبوط ہی کریں گی، کمزور نہیں۔ مجھ ایسے لوگ، جو اکثریت میں ہیں، اپنے دین سے ذہنی اور اخلاقی تربیت حاصل نہیں کرتے لہٰذا ایمان شعور کا مربی نہیں رہا اور اخلاق بھی مصنوعی سے بن کر رہ گئے، فطری نہیں رہے۔ کیونکہ فطری تو اس وقت ہوتے جب ہم اللہ کی طرف رسول اللہ ک کو وسیلہ بنا کر پورے ذہن سے، پورے دل سے اور پورے ارادے سے یکسو ہوتے۔ وہ یکسوئی آئیڈیل نہ ہوتی تو بھی ہمارے نفس اور معاشرت کو خیر پر رکھتی۔
دین کا یہ بہت بنیادی بلکہ فطری تقاضا ہے کہ ہم اسے اس طرح قبول کریں کہ ایمان شعور کو سیراب رکھے اور اخلاق کی پیدائش، پرورش اور نشوونما کا واحد سبب بنے۔ یہ تقاضا کسی بھی درجے میں پورا ہو جائے تو غلطی کا یقینی احتمال رکھنے والی سرگرمیاں بھی مضر نہیں رہتیں بلکہ مقصود کو حاصل کرنے میں ہماری مددگار بن جاتی ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ ہر سرگرمی مقصدی ہو، یعنی ایمانی شعور کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اگر دیکھنا ہو کہ یہ شرط ہمارے اندر پوری ہو رہی ہے یا نہیں، تو صرف یہ جانچ لیں کہ علمی غلطیاں بھی اللہ کی معرفت میں اضافے کا ذریعہ بن رہی ہیں کہ نہیں، اور عملی ناکامیاں بھی اللہ سے مزید نزدیک کر رہی ہیں کہ نہیں؟ مجھے تو بھائی یہی سجھائی دیتا ہے کہ حق و باطل، خیر و شر، حلال وحرام کی کسوٹی پر پورا اترنے کے بعد ہر علم اور ہر فن ہماری دینی شخصیت کی تعمیر میں ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کا مقصود پہلے سے طے شدہ ہو۔ شعر و ادب پر بھی یہی قانون وارد ہو گا۔
ہمارے کچھ قلبی اور طبعی مفادات ہیں جنہیں پورا کرنا ہماری دینی ذمے داری ہے۔ یہ مفادات جمالیاتی شعور کی بیداری اور ایمانی یعنی مجموعی شعور کے ساتھ اس کی ہم آہنگی سے مشروط ہیں۔ ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کر کے پڑھی جائے تو شاعری اس معاملے میں ہماری خاصی مدد کر سکتی ہے۔ مثلاً طبیعت کی اس خشکی اور دل کی اس سختی کو کم یا ختم کر سکتی ہے جو دین کے نام پر خدائی فوجدار بننے والوں کو اکثر لاحق ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بہت سے مخلص دینداروں میں بھی تخیل کا ایک افلاس سا نظر آتا ہے جو انہیں کند ذہن بنائے رکھتا ہے۔ شاعری اور تخلیقی ادب کا سنجیدہ مطالعہ اس افلاس کا علاج ہے۔ خصوصاً شاعری میں جو سمبلزم، امیجری اور تشبیہات کا نظام کارفرما ہوتا ہے، وہ تخیل کی نرسری ہے۔ اسی طرح لفظ اور اس کے معنی میں جو تہ دار اور کثیر الاطراف نسبتیں پائی جاتی ہیں، ان تک پہنچنے کے لیے فہمِ شعر کی تربیت لازماً درکار ہے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ لفظ کی معنویت کی سطحیں اور جہتیں جاننا خود قرآن سمجھنے کے لیے کتنا ضروری ہے! آخر کوئی تو وجہ ہو گی کہ ہمارے سلف میں کوئی ایک بھی شاید ایسا نہ ملے جو اعلی درجے کا ذوقِ شعر، فہمِ لفظ اور شعورِ جمال نہ رکھتا ہو۔
جمالیاتی شعور، مجموعی شعور کا ایک بہت اہم حصہ ہے۔ زیادہ صاف لفظوں میں یوں سمجھیے کہ اگر آدمی کا ایمانی شعور اور جمالیاتی شعور ایک دوسرے سے متصادم یا لاتعلق ہو جائیں تو نہ ذہن ایمانی رہ جائے گا، نہ اخلاق دینی۔ ہم عام طور سے جمالیاتی شعور کا گلا گھونٹنے میں لگے رہتے ہیں اور اس ظلم کو تقریباً جہاد سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ حق کیا ہے کا ہر جواب ناقص ہے جب تک اس میں یہ نہ بتایا جائے کہ حسن کیا ہے اور خیر کیا ہے۔ حق کو حالاً حسن سے کاٹ کر اور عملاً خیر سے منقطع کر کے مجھ ایسے لوگوں نے مذہبی زندگی کو بے کشش، مشینی اور ڈراؤنا بنا دیا ہے۔ دین کا جوہرِ دعوت جیسے مرجھا کر رہ گیا ہے اور تزکیے کے میدان میں زہریلی دھند چھائی ہوئی ہے۔ ہاں، تزکیے پر یاد آیا کہ جمالیاتی شعور کو حق شناس بنائے بغیر اور اسے اللہ کی حضوری کے شعور اور احساس میں صرف کیے بغیر تزکیے کی بنیاد ہی بودی رہ جائے گی۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ جمالیاتی شعور کو سیراب رکھے بغیر تزکیے کے مقصود کو حاصل کرنے کا ٹھیک سے آغاز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ایک جملہ معترضہ کہنا ہے۔ ہمارے یہاں حسن کی ایک ہی تعریف (definition) ہے۔ حسن ظہورِ حق ہے جو دیکھنے والے کو حالتِ احسان میں رکھتا ہے۔ یعنی حسن کا ناظر گویا اللہ کو دیکھنے کے حال میں پہنچ جاتا ہے۔ تو حسین وہی ہے جس سے حق ظہور کر رہا ہو۔ حق کی نسبت کو اپنے مجموعی اظہار پر غالب رکھے بغیر نہ کوئی آدمی جمیل ہے، نہ ہی کوئی منظر حسین۔ اللہ کی نشانی ہے تو ہر شے حسین ہے اور نہیں ہے تو ہر چیز بدصورت ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہنا چاہیے کہ موجود وہی ہے جو اللہ کی نشانی بننے یا بنائے جانے میں کامیاب ہے ورنہ سب کچھ معدوم ہے، مہمل ہے اور گھناؤنا ہے۔
تو جناب، ہم شاعری سے کچھ سیکھنے تھوڑی جا رہے ہیں، ہم تو اپنے ذہن میں موجود مسلمات اور اعتقادات کو خوب ہرا بھرا رکھنا چاہتے ہیں اور ایک کیفیت ِ حضور میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے شاعری سے مدد لے رہے ہیں۔ ہمیں تجربے سے معلوم ہے کہ جمالیاتی شعور اگر کمک پر نہ ہو تو اللہ سے محبت تو دور کی بات ہے، اس پررسمی ایمان بھی محض ایک مفروضہ اور جبر بن کر رہ جاتا ہے۔