سی پی ڈی آئی نے پاکستان میں بجٹ شفافیت سےمتعلق سالانہ رپورٹ جاری کردی

216

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) سماجی تنظیم سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشییٹوز (سی پی ڈی آئی) کی جانب سے پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کردی ہے۔ رپورٹ میں وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں کے بجٹ سازی کے عمل میں کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

سندھ میں ڈرائنگ روم بجٹ بنائے اور پیش کیے گئے ہیں مقامی حکومت کے بجٹ ارکان اسمبلی کی سفارشات پر بنائے گئے جبکہ بلدیاتی اداروں کے بجٹ کی تیاری میں عوامی رائے نہیں لی گئیں وسائل کی تقسیم پر سندھ میں کوئی فارمولا پیش نہیں کیا گیا ہے این ایف سی ایوارڈ پر سندھ میں بہت شور شرابا کیا گیا لیکن صوبائی فنانس کمیشن پر سندھ میں تاحال کوئی فارمولا نہیں دیا گیا ہے۔

ان خیا لات کا اظہا رغیر سرکاری تنظیم سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشییٹوز (سی پی ڈی آئی) کے صوبائی کو آرڈینٹر توفیق وسا ن اور ضلعی کو آرڈینٹر اورکونسل فار پار ٹسپٹری ڈویلمنٹ اشتراکی ترقی کونسل کی سربراہ ڈاکٹر بلقیس رحما ن نے ہفتے کو کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) میں پاکستان میں بجٹ شفافیت سے متعلق سالانہ رپورٹ پیش کرنے کے دوران پریس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سی پی ڈی آئی کے صوبائی کو آرڈینٹر توفیق وسا ن نے کہا کہ آخری بار ارباب غلام رحیم کے دور میں صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ جاری کیا گیا تھاپیپلز پارٹی کے دور میں آج تک صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ جاری نہیں کیا گیا ہے بلدیاتی اداروں کو فنڈز فراہم کرنے کا کوئی فارمولا نہیں بن سکا ہے صوبائی فنانس کمیشن پر 2016ء میں پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی کمیٹی صوبائی فنانس کمیشن پر تاحال کوئی فارمولا طے نہیں کرسکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بلدیاتی حکومت میں ٹینڈر بھی محدود کردئیے گئے ہیں مئیر دو کروڑ روپے سے زاید کا کوئی منصوبہ اپنے طور پر نہیں بنا سکتا ہے سندھ میں انتظامی مسائل کے باعث بلدیاتی حکومت کارکردگی نہ دکھا سکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں معلومات تک رسائی کے قانون پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے،مختلف محکموں کو 150 سے زاید معلومات کے لئے درخواستیں دیں گئی محکموں کی جانب سے بجٹ معلومات فراہم کرنے میں تاخیری حربے استعمال کئے گئے سندھ میں معلومات تک رسائی کے قانون کی موجودگی کے باوجود رسائی نہیں دی گئی، بلدیاتی ادارے بھی بجٹ کے حوالے معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔سندھ میں تاحال معلومات تک رسائی کے حوالے سے پبلک انفارمیشن افسران کی تعیناتی نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستان میں بجٹ مختلف شراکت داروں (اسٹیک ہولڈرز)کے ساتھ مشاورت سے تیار کیا جانا چاہئے اور بجٹ سازی اور بجٹ پر عمل درآمد کے تمام مراحل کے دوران شہریوں کے ساتھ معلومات کا از خودتبادلہ کیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ سی این بی اے پاکستان کے 110 اضلاع میں بجٹ کی شفافیت پر کام کرنے والی 70سے زیادہ سول سوسائٹی تنظیموں کا ایک نیٹ ورک ہے۔ سی پی ڈی آئی ہمیشہ بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت کیلئے کوشاں ہے۔

گذشتہ ایک دہائی سے سی پی ڈی آئی پاکستان کے مختلف اضلاع میں بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت کا جائزہ لے رہی ہے لیکن رواں سال وفاقی اورصوبائی سطح پر اس عمل کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ نہ صرف پاکستان میں بجٹ شفافیت کی صورتحال کا جائزہ لے گی بلکہ اس سے یہ اندازہ لگانے میں بھی مدد ملے گی کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کا حق، بجٹ سے متعلق معلومات کے حصول میں کس حد تک موثر ہے۔

رپورٹ کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے توفیق وسان نے بتایا کہ یہ رپورٹ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ مختلف وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں کو معلومات کے حصول کے لئے ارسال کردہ درخواستوں سے متعلق ہے جن میں بجٹ سازی کے عمل کے دوران مختلف مراحل کے بارے میں معلومات طلب کی گئیں۔اس سلسلہ میں بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت کو جانچنے کیلئے منتخب وفاقی وزارتوں اور صوبائی محکموں کو معلومات کے حصول کی 150 درخواستیں بھجوائی گئیں۔

وفاق کو ارسال کردہ 36 درخواستوں میں سے 6 کے جوابات موصول ہوئے ا ورچاروں صوبوں کے مختلف محکموں کو ارسال کردہ 114 درخواستوں میں سے خیبرپختونخوا ہ سے صرف 2 اور پنجاب سے 4 جوابات موصول ہوئے ہیں جبکہ بلوچستان اور سندھ میں معلومات کی کسی بھی درخواست پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔

دوسرے حصے میں بجٹ دستاویزات کی جامعیت اور بجٹ سازی میں شہریوں کی شراکت کا جائزہ لیا گیا ہے۔یہاں وفاقی حکومت کل 181 پوائنٹس میں سے 71 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے پنجاب دوسرے، بلوچستان تیسرے جبکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ نے آخری دوپوزیشنز حاصل کیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران ”اوپن بجٹ انڈکس” پر پاکستان کی افسوس ناک کارکردگی نے بجٹ سازی کے عمل میں شفافیت اور شہریوں کی شمولیت سے متعلق صورتحال پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ڈاکٹر بلقیس رحما ن نے کہا کہ شفافیت کے بغیر محکمے یا ادارے مستحکم نہیں ہوسکتے ہیں بجٹ کی تیاری میں عوامی شمولیت نظر نہیں آتی بجٹ کی سفارشات پر بات کرنے کے لئے صرف 8 دن کا وقت رکھا گیا ہے گذشتہ بجٹ اراکین کو صرف دو روز قبل دیا گیادو روز میں بجٹ پڑھنا اور اس پر ترامیم یا اضافہ دینا ممکن نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ بک کی سافٹ کاپی شہریوں کو دستیاب نہیں ہوتیں ہیں سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کے بجٹ کا آڈٹ نہیں ہوسکا ہے بلدیاتی اداروں کے پاس بجٹ بنانے کی رقم تک نہیں تھی سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کے اختیارات سلب کر لئے گئے ہیں ضلعی چئیرمین کسی پارک میں گھاس لگانے کے لئے بھی سندھ حکومت کا محتاج ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں بجٹ شفافیت پر جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ سب توجہ طلب ہیں اور حکومت کو اس سلسلہ میں فوری اقدامات کرنے چاہیے، حکومت کی جانب سے معلومات کی فراہمی کے معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور بجٹ تجاویز کو وسیع پیمانے پر شہری گروپوں، سرکاری اداروں اور اہم شراکت داروں کیساتھ زیربحث لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ سازی کے عمل میں شہریوں کی شمولیت کو قانونی تحفظ ملنا چاہئے اور سرکاری اداروں کے لئے لازم ہونا چاہئے کہ وہ بجٹ سازی کے مختلف مراحل کے دوران شہریوں سے مشاورت کریں۔انہوں نے بجٹ سازی اور عمل درآمد کے مراحل کے دوران پارلیمنٹیرینز کے کردار میں اضافے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ مالی سال کے آغاز سے کم از کم تین ماہ قبل اسمبلیوں میں پیش کیا جانا چاہیے اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد زیادہ سے زیادہ معلومات کی فراہمی پرمبنی ایک شفاف اور اوپن بجٹ پالیسی وضع کی جانی چاہیے۔