کراچی میں جرائم، خطرے کی گھنٹی

159

شہریوں اور پولیس کے درمیان رابطے کے لیے قائم ادارے سی پی ایل سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں جرائم بڑھ گئے ہیں۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران 322 افراد قتل اور رہزنی کی 18 ہزار وارداتیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قتل ہونے والے تمام افراد کو رہزنی کے دوران مزاحمت پر نشانہ بنایا گیا گویا ان تمام وارداتوں میں رہزنی یا ڈکیتی ہی سبب ہے اس کے علاوہ 1300 گاڑیاں چھینی یا چوری کی گئیں جبکہ 30 ہزار سے زاید شہری موٹر سائیکلوں سے محروم ہو گئے اور 18 ہزار موبائل فونز چھینے گئے۔ رپورٹ میں بھتے اور اغوا برائے تاوان اور بینک ڈکیتی کے واقعات کا بھی ذکر ہوا ہے لیکن اہل کراچی جو کچھ اس شہر میں دیکھ چکے ہیں اس کے تناظر میں تو یہ سب کچھ کم ہے۔ ایک زمانے میں تو مذکورہ رپورٹ دینے والا ادارہ سی پی ایل سی ہی مشتبہ ہو گیا تھا جس کے سربراہ پر متحدہ سے رابطلوں کا الزام تھا۔ اور وہ زیادہ غلط بھی نہیں تھا۔ اور خصوصاً بھتے اور اغوا برائے تاوان کا تو رپورٹ میں سرسری ذکر ہے یہ کراچی سے ایم کیو ایم کے غلبے کے خاتمے کے سبب ہے یا اب بھی سی پی ایل سی میں متحدہ کے ہمنوا ہیں اور فی الحال اس ٹریڈ مارک کو متحدہ کے لیے سنبھال رکھا ہے۔ لیکن جب حکومتوں کے دعوے کے مطابق سارے انڈر ورلڈ گروپوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی مجرم بچ کر نہیں جائے گا۔ پولیس الگ دعوے کرتی ہے۔ رینجرز الگ موجود ہیں۔ درجنوں ایجنسیاں بھی سرگرم ہیں اس اعتبار سے یہ اعدادوشمار بھی خطرے کی گھنٹی ہیں۔ کیونکہ شہریوں کی بہت بڑی تعداد موبائل چوری کی رپورٹ کم ازکم پولیس کو تو نہیں کرتی زیادہ سے زیادہ پی ٹی اے میں موبائل چوری کی اطلاع دے کر سم بلاک کرا دی جاتی ہے یا کوئی مزید کارروائی کرے تو موبائل بھی بلاک کرا دیتا ہے۔ اسی طرح بہت سی رہزنی کی وارداتیں رپورٹ نہیں ہوتیں۔ کراچی میں جگہ جگہ پولیس اور رینجرز ناکے بھی لگاتے ہیں لیکن قانون کی اس چھلنی سے بھی وارداتیے نکل جاتے ہیں۔ حکومت کی ایجنسیاں، پولیس، رینجرز اور خفیہ ادارے ایک دوسرے اور سیاسی رہنمائوں کی نگرانی کے بجائے عوام کو تحفظ دینے پر توجہ دیں تو صورتحال اس سے بہتر ہو سکتی ہے۔ سیکورٹی، ایجنسیوں کی موجودگی میں جرائم کا سر چڑھ کر بولنا حکومت کی ناکامی کی دلیل ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کراچی کا درد ایم کیو ایم کے پیٹ میں مروڑ کی طرح اٹھنے لگا ہے۔ سندھ حکومت بھی کراچی کراچی کر رہی تھی۔ وفاق کا مروڑ تو اتنا تھا کہ اس نے کراچی کے لیے 11ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کر دیا۔ مروڑ نے یو ٹرن لیا اور 11 روپے بھی کسی ادارے کو ملتے نظر نہیں آئے۔ اب کراچی میں جرائم بڑھ رہے ہیں ابھی سے اس کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے جرائم کو پھلنے پھولنے دیا جاتا ہے۔ گروہوں کو حکومتیں اپنے کام میں استعمال کرتی ہیں۔ ان سے کام لینے کے بعد انہیں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ گروہ طاقتور ہو کر لیاری گینگ وار کے گروپوں کی شکل میں سامنے آتے ہیں یا دنیا کی سب سے بڑی مافیا ایم کیو ایم کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ دنیا بھر میں مافیاز موجود ہیں۔ لیکن انہیں مافیا ہی سمجھا جاتا ہے پاکستان خصوصاً کراچی میں مافیا کو حکومت کی چھتری مل گئی جس کے نتیجے میں یہ مافیا دنیا بھر کی حکومتوں کی نظر میں معزز ٹھہری۔ ورنہ عموماً مافیا اور حکومت الگ الگ ہوتے ہیں۔ کراچی میں کسی گروہ کے مافیا بننے سے قبل اس کی روک تھام کرنی ہوگی۔ کراچی کا المیہ یہ ہے کہ یہاں سے 65 سے 70 فیصد ٹیکس تو وصول کیا جاتا ہے۔ لیکن اس شہر کی صنعتوں کو اور اس کے ٹیکس دہندگان کو اس کے عوض کچھ نہیں دیا جاتا۔ جس شہر میں جرائم کی شرح اس قدر زیادہ ہو اس کے لوگ پھر بھی قومی پیداوار میں اضافے میں مصروف رہیں ٹیکس بھی دیتے رہیں تو ایسے شہریوں کو سلام کیا جانا چاہیے لیکن ان شہریوں کا حق مارنے والوں کے ساتھ کیا ہونا چاہیے۔ اس سوال کا جواب عوام ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی پذیرائی کیوں ہوتی ہے۔ آج کل ہر طرف سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کی واہ واہ ہو رہی ہے۔ موصوف کے خلاف نیب ریفرنس ہے کہ سرکاری اراضی غیر قانونی طور پر بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کے داماد کو الاٹ کر دی گئی۔ ان کے خلاف فرد جرم بھی عاید کر دی گئی ہے۔ جس روز جرائم میں اضافے کی خبر شائع ہوئی ہے اس روز سے عوام میں ایک انجانا خوف ہے کہ سی پی ایل سی یہ رپورٹ دے رہی ہے تو عوام کا کیا ہوگا۔ اگر اس رپورٹ کے ساتھ یہ بھی بتا دیا جاتا کہ کتنی مسروقہ گاڑیاں برآمد کی گئیں، کتنے رہزن گرفتار ہوئے، کتنے قاتل گرفتار ہوئے اور کتنوں کو سزا ہوئی تو اچھا ہوتا۔ جب تک مجرم کو سزا کے بجائے اعزازات اور حکومت ملتی رہے گی۔ جرائم بھی پھلتے پھولتے رہیں گے۔