مغرب کے دہرے معیارات

270

فرانس نے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فرانس میں مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو کبھی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ جرمنی میں یہودیوں کے گلے میں ایک مخصوص ستارہ لٹکا دیا گیا تھا اور اب فرانس میں مسلمان بچوں کو نمبر الاٹ کیے جا رہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ ان کی نگرانی کی جائے گی کہ وہ اسکول آتے ہیں یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ ان کی ’’ہوم اسکولنگ‘‘ نہ ہونے پائے۔ فرانس نے نہ صرف یہ کہ شیریں مزاری کے بیان کو شدت پھیلانے والاقرار دیا ہے بلکہ فرانس میں پاکستان کے ناظم الامور کو بھی طلب کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں شیریں مزاری نے دو باتیں کی ہیں۔ انہوں نے ایک بات یہ کہی ہے کہ انہوں نے فرانس کے بارے میں جو کہا وہ ایک لنک کی بنیاد پر کہا۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ فرانس میں راہبائوں کو مخصوص لباس پہننے کی آزادی ہے مگر مسلم خواتین کو پردہ کرنے کی آزادی کیوں نہیں ہے؟ صرف فرانس نہیں پورے مغرب کی تاریخ دہرے معیارات کی تاریخ ہے۔ مغرب جس آزادیٔ اظہار کا علمبردار ہے وہ خود مسلمانوں کو اس آزادیٔ اظہار کی اجازت نہیں دیتا۔ شیریں مزاری نے اپنے بیان میں فرانس پر دہشت گرد حملہ نہیں کیا تھا‘ انہوں نے صرف ایک بات کہی تھی مگر فرانس شیریں مزاری کی اس بات پر ناراض ہو گیا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ فرانس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنانے کو آزادیٔ اظہار کہتا ہے اور مسلمانوں سے اس آزادیٔ اظہار کا حق طلب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مسلمان اس آزادیٔ اظہار پر ناراض کیوں ہوتے ہیں مگر پاکستان کی ایک وزیر فرانس کی امتیازی پالیسی کے بارے میں ایک بیان دے دیتی ہیں تو فرانس مشتعل ہو جاتا ہے‘ پاکستانی وزیرکے بیان کی مذمت کرتا ہے اور پاکستان کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر لیتا ہے۔ آخر یہ کیسا دہرا معیار ہے؟ لیکن مغرب کا دہرا معیار صرف آزادیٔ اظہار کے مسئلے سے متعلق نہیں‘ مغرب مسلم معاشروں میں بے حیائی کے کلچر کو عام کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس نے این جی اوز کے ذریعے ہمارے ڈراموں تک کو اچک لیا ہے۔ دوسری جانب وہ عورت کی تذلیل کرتے ہوئے عورت کے لباس کو مختصر سے مختصر کرتا چلا جا رہا ہے مگر مسلم خواتین مغربی معاشروں میں برقعے کیا اسکارف کی آزادی طلب کرتی ہیں تو اُن کے پردے کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے ایک بار برقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’اس میں مسلم خواتین یا تو دہشت گرد لگتی ہیں یا لیٹر بکس۔‘‘ جہاں تک فرانس کا تعلق ہے تو اس نے برقعے کو کیا اسکارف کو بھی ہضم نہیں کیا اور اس پر پابندی لگا دی۔ آخر یہ کیسی آزادی ہے جو خواتین کو لباس اتارنے کی اجازت تو دیتی ہے مگر لباس زیب تن کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔مغربی دنیا جمہوریت کے سلسلے میں بھی عرصے سے دہرے معیارات کی حامل چلی آرہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مغربی دنیا کہا کرتی تھی کہ مسلم دنیا کی مذہبی جماعتیں اور ملا مولوی ڈنڈے کے زور پر تو اقتدار میں آسکتے ہیں مگر جمہوری طریقے سے انتخابات کے ذریعے اقتدار میں نہیں آسکتے۔ مگر الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کا پہلا مرحلہ جیتا تو مغربی دنیا میں زلزلہ آگیا اور مغرب نے فرانس کی فوج کو اسلامی فرنٹ کے خلاف صف آرا کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس میں انتخابات کے دوسرے اور فیصلہ کن مرحلے کی نوبت ہی نہ آسکی اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جو دس سال میں دس لاکھ انسانوں کو نگل گئی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان وزیر اعظم بنے تو مغرب نے ان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ عرصے نہ چلنے دیا۔ فلسطین میں حماس نے شاندار انتخابی کامیابی حاصل کی مگر امریکا اور یورپ نے حماس کی حکومت کو قانونی اور آئینی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ مصر میں صدر مرسی کی حکومت آئی تو ان کے خلاف بھی فوج کے ذریعے سازش کی گئی اور صدر مرسی کو اقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب جمہوریت کے سلسلے میں بھی دہرے معیارات کا حامل ہے۔ مسلم دنیا میں اگر پیپلزپارٹی اور نواز لیگ جیسی سیکولر اور نیم سیکولر جماعتیں اقتدار میں آئیں تو جمہوریت فتح یاب ہوتی ہے لیکن اگر اسلامی جماعتیں اقتدار میں آجائیں تو جمہوریت کی تذلیل ہوجاتی ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ اسلامی جماعتیں انتہا پسند ہیں‘ یہ ایک بھونڈا الزام ہے لیکن اگر اس الزام کو ایک لمحے کے لیے تسلیم کر لیا جائے تو کہا جائے گا کہ انتہا پسند تو مودی اور ٹرمپ بھی تھے۔ ان کی حکومتوں کو مغرب نے سبوتاژ نہیں کیا۔ مغرب کے حوالے سے یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ مغرب جمہوریت کی بات کرتا ہے مگر اس نے تواتر کے ساتھ مسلم معاشروں میں فوجی آمریتوں کی حمایت کی ہے ۔جنرل ایوب نے اگرچہ1958ء میںمارشل لاء لگایا کہ وہ1954 سے امریکا کے رابطے میں تھے ۔ جنرل ضیاء الحق دس سال تک پاکستان کے حکمران رہے مگر اس طویل عرصے میں امریکا یا یورپ کو کبھی ان کی آمریت کے حوالے سے پریشان ہوتے نہ دیکھا گیا ۔ جنرل پرویز مشرف تو اتنے امریکا زدہ تھے کہ مغربی پریس انہیں صدر بش کی رعایت سے بشرف کہتا تھا۔مغرب کہتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد اور جنگ پسند ہیں مگر خود مغرب کی تاریخ اس حوالے سے شرم ناک ہے۔ امریکا کے سفید فاموں نے امریکا پر قبضہ کرنے کے لیے آٹھ سے دس کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کر ڈالا۔ یورپ نے پانچ سو سال میں 2,600 سے زیادہ جنگیں لڑیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگِ بھی مسلمانوں کی نہیں مغرب کی ایجاد تھی۔ ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم بھی امریکا نے استعمال کیے تھے‘ مسلمانوں نے نہیں مگر اس کے باوجود بھی مغرب ’’پُرامن‘‘ ہے اور مسلمان جنگ پسند۔ آخر مغرب اپنے دہرے معیارات سے کب جان چھڑائے گا؟