15نومبر کوگلگت بلتستان میں قانون ساز اسمبلی کا الیکشن ہو چکا۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے چند حلقے بھی اس کے کیخلاف ہیں عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اس میں دہلی اور اسلام آباد کے مابین کسی قسم کی مفاہمت کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے؟ عالمی سطح پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آزادی پسند تنظیم حریت کانفرنس اور بعض دیگر حلقے بھی ’’گلگت بلتستان‘‘ میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے خلاف ہیں۔ الیکشن کرانے کے پیچھے کیا نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین کسی قسم کی مفاہمت کا ہاتھ یا ان انتخابات میں پاکستان کے قریبی دوست کی بھی رضامندی شامل ہے؟ اس کا جواب بہت جلد سامنے آجائے گا۔ شمالی پاکستان کا قدرتی حسن سے مالا مال یہ علاقہ درجنوں سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کی توجہ کا مرکز بنا رہا اور ان کے لیڈران اور کارکنان غیر معمولی طور پر متحرک نظر آئے۔ خاص طور سے پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان میں اپنے اپنے ووٹ بینکس بنانے اور زیادہ سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے کی جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ ملکی سیاست کا دھارا پوری طرح سے گلگت بلتستان کی طرف موڑ دیا گیا۔ گلگت بلتستان کو مکمل آئینی حقوق اور پارلیمان میں عوامی نمائندگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صوبے کا درجہ دینے کا حکومتی اعلان پاکستان سمیت پورے خطے کی سیاست کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں ماہرین و مبصرین اس کے مضمرات پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈال رہے ہیں۔ اْدھر بھارت اور کشمیر کی حریت پسند جماعتیں بھی پاکستانی اقدامات سے خوش نہیں ہیں۔ حریت کانفرنس نے گلگت بلتستان کو ایک نیا صوبہ بنائے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کے معتمد خاص شمس الرحمان کا کہنا ہے کہ ’’کشمیر کی 1947ء سے پہلے کی جو پوزیشن تھی وہ بحال رہنی چاہیے اور کسی ایک ملک کی جانب سے یکطرفہ اقدامات سے اس کی تاریخی نوعیت اور متنازع حیثیت متاثر نہیں ہوگی۔ حریت رہنما کا کہنا ہے کہ جب تک اس پورے متنازع خطے پر سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے اس کا کوئی دیرپا حل نہیں نکلتا اس وقت تک کسی بھی ملک کی جانب سے اس طرح کے یکطرفہ اقدامات قطعی قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے تمام ہی علاقوں میں امن وامان کی صورتحال بہت بہتر ہے اس لیے یہ بھی ضروری ہے ان علاقوں میں معاشی ترقی پر بھی توجہ دی جائے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان انیس سو اڑتالیس میں جو جنگ ہوئی تھی تب پاکستان نے کشمیر کا ایک حصہ بھارت سے چھڑوا کر اسے اپنی عملداری میں لیا تھا، 1949ء کی سیز فائر لائن کے تحت کشمیر کا یہ ٹکڑا اور گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ بن گئے لیکن یہ اب بھی متنازع خطے کی حیثیت رکھتا ہے جس میں کوئی رد وبدل نہیں کیا جا سکتا
عالمی اور ملکی تجزیہ نگاروں کے مطابق الیکشن صاف اور شفاف ہوئے ہاں یہ بات شدت سے دیکھنے میں آئی ہے کہ اس الیکشن میں مقامی مسائل سے زیادہ وفاقی سیاست پر بات ہوئی، پیسہ خوب چلا اور ایک بار پھر ’فرشتے‘ متحرک نظر آئے لیکن یہ سب کچھ یہاں ماضی میں بھی انتخابی روایت رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں چند امیدواروں کو سدا بہار کہا جاتا ہے۔ سدا بہار امیدوارں کی ایک اچھی تعداد نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ گلگت بلتستان میں اہل تشیع اثنا عشری اور اسماعیلیوں کی بھی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ اس کے علاوہ نور بخشی اور دیوبندی بھی علاقے کے طول عرض پر آباد ہیں۔ پاکستان کے شمال اور شمالی مغرب میں کرم ایجنسی کے بعد یہ واحد علاقہ ہے جہاں شیعوں کی اتنی بڑی تعداد ہے۔ کل آبادی میں شیعہ آبادی انتالیس فی صد، ستائیس فی صد سنی، اٹھارہ فی صد اسماعیلی اور سولہ فی صد کے قریب نور بخشی ہیں۔ گلگت بلتستان میں نون لیگ کو سنی مسلک والے علاقوں میں حمایت رہی ہے جب کہ پی پی پی کو اہل تشیع کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس بار دلچسپ بات یہ ہے کہ شیعہ جماعتوں کا رجحان پی ٹی آئی کی طرف نظر آتا ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی کی نسبت فرقہ وارانہ عنصر اب اتنا مؤثر نہیں رہا۔
کچھ طبقات میں گلگت بلتستان کے قوم پرست جذبات پائے جاتے ہیں، تاہم انتخابی سیاست پر اس کا اثر قدرے محدود نظر آتا ہے۔ سینٹرل گلگت سے تعلق رکھنے والے قوم پرست شیر بہادر کہتے رہے ہیں کہ وفاق پرست جماعتوں کو گلگت بلتستان کے قومی وسائل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پہاڑوں، جنگلات، معدنی وسائل، آبی وسائل اور دیگر وسائل پر ہمارا حق ہو۔ ہم سبجیکٹ رول کی بحالی چاہتے ہیں کیونکہ گلگت بلتستان میں بڑے پیمانے پر غیر مقامی افراد زمینیں خرید رہے ہیں۔ یہاں کی زمینوں پر یہاں کے لوگوں کا حق ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سبجیکٹ رول ختم کر کے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ظلم کیا تھا۔ قراقرم نیشنل موومنٹ اور بلاورستان نیشنل فرنٹ سمیت قوم پرست جماعتوں نے بھی انتخابات میں حصہ لیا لیکن ان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔ اسی طرح جی بی کے کچھ علاقوں میں انتخابات کے دوران قبائلی اثر ورسوخ بھی اہم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ضلع دیامر میں قبائلی شناخت بہت مضبوط ہے۔ ہنزہ میں بھی قبائل کی اہمیت رہی ہے لیکن عوامی ورکرز پارٹی کے آنے سے یہ عنصر کچھ کم ہوا ہے۔ ماضی میں یہاں انتخابات کے موقع پر اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہوتی رہی ہے لیکن اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔
جموں کشمیر کی متنازع حیثیت میں تبدیلی، آرٹیکل 370 کو ختم کرنے اور 35-A میں ترامیم کے بعد بھارت کی طرف سے گلگت بلتستان کی آئینی اور سیاسی حیثیت میں تبدیلی پر احتجاج کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ بھارت نے خود تنازع کشمیر کے حوالے سے موجود اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یک طرفہ طور پہ جموں وکشمیر کو ’’انڈین یونین‘‘ کا حصہ قرار دے دیا ہے۔ مرکزی حکومت کے وزراء گلگت بلتستان میں الیکشن مہم چلاتے رہے ہیں جو الیکشن ایکٹ 2017ء کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس علاقے میں پی پی پی اور نون لیگ دونوں ہی حکومتیں بناتی رہی ہیں لیکن پاکستان کی طرح وہاں کے عوام سے بھی ان پارٹیوں نے صرف وعدے ہی وعدے کیے ہیں جس کی وجہ ان کو یہا ں کے عوام نے یکسر مستردکر دیا ہے۔ لیکن ایک مسئلہ اور بھی ہے یہاں کے تمام تر ترقیاتی فنڈز وفاقی حکومت فراہم کرتی ہے اور وفاقی حکومت کی مخالف حکومت گلگت بلتستان میں کچھ بھی نہیں کر سکتی ہے۔ اس لیے یہاں عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر صوبے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کا راستہ بند کر دیا ہے۔