چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نےپائلٹس کے جعلی لائسنس کی تعداد میں تضاد پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں 262 کا کہہ کر اب کہا جارہا 82 پائلٹ جعلی لائسنس ہولڈر تھے، ملک اور پی آئی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا کون ذمے دار ہے؟
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ آیندہ 2 سے 3 روزمیں ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی تعیناتی ہوجائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پائلٹس کے لائسنس معاملے کو انتہائی غیرذمے داری سے ہینڈل کیا گیا، غیرذمے داری سے معاملہ ہینڈل کرنے سے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو نقصان ہوا،پوری دنیا میں پاکستانی پائلٹس کو نقصان ہوا، ہزاروں پائلٹس اس سے متاثر ہوئے، میں نے کابینہ کو مشورہ دیا تھا کہ قانون کے مطابق قائم مقام ڈی جی کا چارج نہیں دیا جاسکتا، سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ایک ریگولیٹر اوردوسری سروس فراہمی کاکام کرے گی۔
عدالت نے سیکرٹری سول ایوی ایشن کے بطورڈی جی سول ایوی ایشن فیصلوں پرسوال اٹھا دیا۔سیکرٹری ایوی ایشن اتھارٹی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی مگر کس قانون کے تحت سیکرٹری ایوی ایشن کو ڈی جی کا اختیار دیا گیا؟ یہ بتائیں 262 کی غلط انفارمیشن کس نے دی؟ اس بیان کی وجہ سے انٹرنیشنل ریگولیٹرز نے قومی ایئرلائن پر پابندیاں عائد کیں، اس معاملے کا کون ذمے دار ہے؟ ایئرلائن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا، پارلیمنٹ میں 262 کا کہہ کر اب کہا جارہا 82 پائلٹ جعلی لائسنس ہولڈر تھے، وفاقی حکومت کو سیکرٹری کو ڈی جی کا ایڈیشنل چارج دینے کا اختیار نہیں، قومی ایئرلائن کو نقصان پہنچانے کا کوئی تو ذمے دار ہوگا۔
عدالت نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ میں کتنے جعلی لائسنس یافتہ پائلٹس کا بیان دیا گیا؟ جس پر سیکرٹری سول ایوی ایشن نے کہا کہ جعلی لائسنس یافتہ پائلٹس کی تعداد 82 بنتی ہے، پارلیمنٹ میں262 پائلٹ کی جعلی ڈگری کا بیان دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک غلط انفارمیشن پر دیے گئے بیان سے پی آئی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا،ملک اور پی آئی اے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا کون ذمے دار ہے؟