تحریک ِ لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی بھی محمد عربیؐ کی عزت وناموس کی چوکیداری کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے اپنے آخری خطاب میں اپنے لیے ختم ِ نبوت اور رسول اللہؐ کی عزت وناموس کا چوکیدار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اپنی ساری زندگی انہوں نے اسی کام میں گزار دی کہ ناموس رسالت میں جان بھی قربان ہے۔ پاکستانی حکمرانوں نے ہر اس شخصیت کی کھل کر ہمیشہ مخالفت ہی کی ہے جس نے ملک میں ختم ِ نبوت اور محمد مصطفیؐ کی عزت وناموس اور ملک میں اسلامی نظام کی بات کرنے کی جسارت کی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہو چکا تھا خادم حسین ایک دن ختم ِ نبوت کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں جس کے لیے ان کے پاس اسٹریٹ پاور موجود ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا ان کی موت سے کن کن حلقوں میں اطمینان کا سانس لیا گیا لیکن سب سے پہلے ’’ڈچ رکن پارلیمنٹ ملعون گیرٹ ولڈرز‘‘ جس نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں تحریک ِ لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کی موت پر یہ کہا کہ ’’اچھا ہوا مر گئے اس شخص نے ہماری زندگی اجیرن بنا رکھی تھی‘‘ اور بھی بہت برے الفاظ تحریک ِ لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے خلاف استعمال کیے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خادم حسین رضوی پوری مغربی دنیا میں ’’ختم نبوت اور نبی کریمؐ کی عزت وناموس کے چوکیدار‘‘ کے طور پر ایک بہت بڑے رہنما کی حیثیت سے نمایاں تھے۔
ہالینڈ کی اسلام مخالف جماعت فریڈم پارٹی آف ڈچ کے متنازع رہنما گیرٹ ولڈرز نے اگست 2018ء کو پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا تھا۔ جس پر ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک روٹے نے پریس کانفرنس کے دوران وضاحت کی تھی کہ گیرٹ ولڈرز حکومت کے رکن نہیں اور نہ ہی یہ مقابلہ حکومت کا فیصلہ ہے۔ مارک روٹے نے گیرٹ ولڈرز کی جانب سے اس متنازع مقابلے کے انعقاد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ گیرٹ ولڈرز کا مقصد اسلام سے متعلق بحث کا آغاز نہیں بلکہ جذبات کو بھڑکانا ہے۔
اس کے علاوہ بھارت میں بھی خادم حسین رضوی کی موت پر بہت ڈھول پیٹا گیا۔ بھارت کے تمام ہی چینلوں نے خادم حسین رضوی کا ذکر ’’ختم نبوت اور ناموس رسالت کے چوکیدار‘‘ کے بجائے انتہاء پسند و دہشت گرد کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کی۔ بھارت کے 100سے زائد چینلوں نے خادم حسین رضوی کے خلاف زہریلی آگ بھڑکانے میں تن من دھن سے اپنا بھرپور کر دار ادا کیا۔ خادم ِ ختم ِ نبوت کی رخصتی پر یورپ اور بھارت میں دھوم دھڑکا؟ جاری ہے اور بھارت کے تمام ہی چینل خوب ڈھول پیٹنے میں مصروف ہیں لیکن اس موقع پر پاکستان کی حکومت کی خاموشی ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آئی ہے جہاں سے روزانہ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانات پر شور مچایا جاتا ہے کہ ان کے بیانات پر بھارت میں پاکستانی اداروں کے خلاف ڈھول پیٹا جارہا ہے اور پاکستان کی بے عزتی ہو رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اب ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ کیا پاکستان کے دستور کے مطابق پاکستان کے شہری کے لیے دنیا میں جہاں کہیں بھی برے الفاظ کا استعمال کیا جارہا ہو اور ہالینڈ کے رکن پارلیمنٹ ملعون گیرٹ ولڈرز کی جانب سے بھونکنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہماری حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں آخر ایسا کیوں؟ کیا ہمارا دستور کسی پاکستانی اور خاص طور پر خادم حسین رضوی جیسی شخصیت کی بھی جان مال عزت و آبرو کو بیرونِ ملک بے آبرو کرنے والوں کے خلاف کچھ نہیں بول سکتا۔
خادم حسین رضوی نے ابتدائی تعلیم چوتھی کلاس تک اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے ضلع جہلم چلے گئے اس وقت ان کی عمر بمشکل آٹھ سال ہی تھی اور یہ 1974 کی بات ہے۔ جب خادم حسین اکیلے جہلم پہنچے تو اس وقت تحریک ختم نبوت اپنے عروج پر تھی اور اس کی وجہ سے جلسے جلوس اور پکڑ دھکڑ کا عمل چل رہا تھا۔ جہلم میں علامہ صاحب کے گاؤں کے استاد حافظ غلام محمد موجود تھے جو انہیں جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم عید گاہ لے گئے۔ یہ مدرسہ قاضی غلام محمود کا تھا جو پیر مہر علی شاہ کے مرید خاص تھے۔ وہ خود خطیب و امام تھے اس لیے مدرسہ کے منتظم ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمن تھے۔ مدرسہ میں حفظ قرآن مجید کے لیے استاد قاری غلام یاسین تھے جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا اور وہ بینائی سے محروم تھے۔ خادم حسین نے قرآن مجید کے ابتدائی بارہ سپارے جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں حفظ کیے اور اس سے آگے کے اٹھارہ سپارے دارالعلوم میں حفظ کیے۔ 1980ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے۔ وہاں آپ نے شہرہ آفاق دینی درس گاہ جامعہ نظامیہ لاہور میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ لاہور مدرسہ میں آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1988ء میں فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ قرآن پاک حفظ کرنے کے علاوہ درس نظامی اور احادیث پڑھیں۔ لیکن جہلم سے تحریک ختم نبوت میں شرکت اور جدِوجُہد کو ساری زندگی انہوں نے اپنے دل میں بہت ناز سے پرورش کی اور زندگی کی آخری سانس تک عزت ِ ناموس رسالت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ تحریک لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کے اچانک انتقال کی خبر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔
پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات 11 نومبر، 2004ء کو جب دنیا سے رخصت ہوئے تو میں اُس وقت نوائے وقت میں صحافتی خدمات انجام دے رہا تھا۔ یاسر عرفات کی موت پر نوائے وقت کے ’’ایڈیٹر سجاد میر‘‘ سے ایک مقامی چینل نے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نے یاسر عرفات کو زہر دیا ہے جس پر سجاد میر نے جواب دیا کہ: ’’اگر یہ بات درست ہو کہ یاسر عرفات کو اسرائیل نے زہر نہیں دیا لیکن دنیا بھر کے مسلمان اسرائیل کی اس بات کو درست تسلیم کر نے کو ہر گز تیار نہیں ہیں۔ آج علامہ خادم حسین رضوی کی موت بھی کیا ایسی ہی کسی صورتحال سے دوچار ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی کے مریدین اور ان کے گھر والوں کو اس بات کا یقین نہیں کہ وہ اس قدر بیمار تھے کہ ان کی موت ہو جائے۔