Inward سے outward خارجہ پالیسی

204

کسی ملک میں الیکشن اور اس کے نتیجے میں وہاں پر قیادت کی تبدیلی ایک معمول کی بات ہوتی ہے۔ لیکن امریکی الیکشن اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ اس کے اچھے یا بْرے اثرات نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ دنیا میں ایسے ممالک جن کے مفادات امریکا کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں وہ اپنی پالیسیاں امریکی قیادت کے ساتھ ہی تبدیل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں ایسے حساس مقامات پائے جاتے ہیں جو براہِ راست متاثرین میں شامل ہیں۔ مثلاً مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا بشمول (Fareast) جنوبِ مشرقی ایشیا۔
اپنے قیام کے بعد سے امریکا کی خارجہ پالیسی زیادہ تر Inward یعنی اپنے مقامی مسائل کے اردگرد ہی گھومتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1789 کا امریکا سو سال بعد اپنے رقبے سے کئی گنا بڑھ کرتقریباً موجودہ شکل میں آگیا تھا۔ اْس وقت کی یورپی طاقتیں جو دنیا کوکنٹرول کرتی تھیں اْن کو دنیا بھر میں سیاسی، معاشی اور عسکری اثرو رسوخ حاصل تھا۔ اور اس دنیا کی امریکا کو کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ لہٰذا Inward خارجہ پالیسی امریکا کی مجبوری تھی۔ اور پھر یہ دنیا کو کنٹرول کرنے والے ممالک اپنے ہوس اور طاقت کے نشے میں ایک ایسی جنگ میں کود پڑیں جو عالمی جنگ میں بدل گئی اور اس جنگ کا خوب خوب فائدہ امریکا نے اٹھایا۔ یہ پہلا موقع تھا جب دانشور امریکی صدر وِلسن نے جنگ کے بعد دنیا کے سامنے 14نکات رکھے جن میں ایک نقطہ ایک ایسی تنظیم کا قیام تھا جو جنگ کا راستہ روک رکھے۔ امریکا اپنے Inward پالیسی کی بدولت کبھی خود کی تجویز کردہ اس تنظیم (League of Nation) کا رکن کبھی نہ بنا اور پھر جب یہ پوری اقوام دوسری عالمی جنگ کا حصہ بنیں تو امریکا کا ایک بار پھر داؤ لگ گیا۔ اور اس بار تو یہ یورپی اقوام اتنی کمزور ہوئیں کہ دنیا بھر میں اپنی کالونیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنی تعمیرِ نو کے لیے صدی کے سب سے بڑے پروگرام ماشل پلان کے تحت امریکا سے امداد بھی لینے پر مجبور ہو گئیں۔ اور یہاں سے امریکا کی Out Ward خارجہ پالیسی کا آغاز ہوا۔
کمیونزم کے خطرے کے تدارک کے لیے امریکا نے سرمایہ دارنہ دنیا کو Lead کرنا شروع ہوا اور یہاں سے اس کا عالمی کردار شروع ہوا۔ حتیٰ کہ USSR ختم ہوگیا اور اس کے ساتھ کمیونزم بھی۔ لیکن امریکا کی Out Ward پالیسی اْسی آب و تاب سے جاری رہی ہاں یہ ضرور ہوا کہ مختلف پارٹیوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ کے برسرِ اقتدار آنے سے اس میں کچھ نہ کچھ شدت کی کمی یا زیادتی آتی رہی۔ یقینی طور پر ٹرمپ کی (Inward) پالیسیوں کے بعد اگر جوبائیڈن اپنی پرانی حکمت ِ عملی یعنی Outward پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھتے ہیں تو جو ممالک اور خطے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے وہ مشرقِ وسطیٰ اور چین کے ہمسائے ہیں۔ اگرچہ عمومی تاثر یہی ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی میں امریکی صدر تبدیل
ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ عمومی طور پر پینٹا گون کی پالیسی سمجھا جاتا ہے لیکن پھر بھی ڈیموکریٹ اور ری پبلکن کا ایک بنیادی فرق ہے اور یہ فرق Inward اور Outward سوچ کا ہے۔ جہاں پہ ڈیموکریٹ عام طور پر Inward سوچ کے حامل سمجھے جاتے ہیں اور ری پبلکن Outward وہیں پر یہ پہلی بار ہوا کہ ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ سے ایک ایسا امیدوار کامیاب ہوا جس کی خارجہ پالیسی کی سوچ بہت حد تک ڈیموکریٹ جیسی تھی، اور یہی اس کے زوال اور وائٹ ہاؤس سے اْس کی جلد رخصتی کا سبب بھی بن گئی۔ اب اْس کی جگہ پہ ایک ایسا اْمیدوار کامیاب ہوا ہے جو ہے تو ڈیموکریٹ لیکن اس کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی ری پبلکن سوچ کی عکاس ہوسکتی ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے اور یقینا ہوگا تو پھر اْمید رکھتے ہیں بہت جلد دنیا میں سخت دور آنیوالا ہے۔ چین کو گھیرنے کی امریکی پالیسی Soft Power Strategy سے Hard Power Projection میں بدل سکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی Strategic outreach کو تھوڑی لگام مل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودیہ کی Unilateral حمایت کی پالیسی پہ نظر ثانی ہوسکتی ہے اور ایران کے ساتھ جوہری پھیلاؤ کے معاہدے کو ازسرِ نو لاگو کیا جا سکتا ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کریمیا کے مسئلے پر روس پر لگی ہوئی پابندیاں مزید سخت کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثرو رسوخ کو غیر موثر بنانا ہے جو امریکا کے لیے اب ایک چیلنج سے کم نہیں۔ اس کے لیے ہر ممکن صورتحال زیرِ غور آسکتا ہے جس میں چین کا مکمل گھیراؤ کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا، انڈیا، آسٹریلیا اور جاپان کا اتحاد کواڈ دوسرامیری ٹائم ناٹو بن سکتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو دوسروں کا استعمال کرنا اور اپنا مطلب نکالنے کا فن خوب آتا ہے۔ اس بات کے ثبوت کے لیے پچھلی پوری صدی گواہ ہے جب امریکا نے دنیا میں برپا ہونے والے ہر واقعے کو اپنے حق میں خوب خوب استعمال کیا اور دنیا میں ہونے والی ہر جنگ کے بعد امریکا پہلے سے طاقتور بنا ہے اور اس کا سیاسی اور معاشی رسوخ دوچند ہوا ہے۔
اس سارے صورتحال میں دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ امریکا کی Outward پالیسی کے نتیجے میں ایک نئی سرد جنگ کی شروعات ہو سکتی ہے جس میں غیر جانبداری کا چناؤ صفر ہے کیونکہ پاکستان میں چین کی بھاری سرمایہ کاری ہے اور پاکستان چین کا اسٹرٹیجک بھی ہے۔ تبدیل ہوتی دنیا کے اس خاص دوراہے پر جب چین ایک حقیقت کے طور پر ابھرا ہے وہیں اب دیکھنا ہوگا کہ امریکا کی Outward خارجہ پالیسی کتنی کامیاب ہوتی ہے۔ کیا چین کو ساؤ تھ چائنا سی میں امریکا اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر نیا محاذ یقینا ایڈین اوشین سی ہوگا اور ہم کو آنیوالے وقت کے لیے خود کو ابھی سے تیار کرلینا چاہیے کیونکہ اس بار امریکا لکیر کے دوسری طرف کھڑا ہے۔