پاکستان میں کرکٹ کی زبوں حالی کی وجہ کلب کرکٹ کی عدم بحالی ہے

105

کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) دنیائے کھیل میں فٹبال، ہاکی کے ساتھ ساتھ کرکٹ بھی اپنے چاہنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد رکھتا ہے ، ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کھیلوں سے دلچسپی کے لحاظ سے کرکٹ کو بہت بڑے فرق کے ساتھ اول مقام حاصل ہے۔ تجزیہ بھی یہ ہی بتاتا ہے کہ پاکستان میں 87فیصد شائقین کرکٹ کو پسند کرتے ہیں۔دیکھا جائے تو کرکٹ شہروں سے نکل کر فاٹا جیسے علاقے تک پھیل چکی ہے اور قومی ٹیم میں کراچی 3کروڑ کی آبادی والا شہر بہت پیچھے چلا گیا جس کی مثال کچھ ہفتوں قبل زمبابوے کیخلاف قومی کرکٹ ٹیم کا اعلان تھا جس میں ایک بھی کھلاڑی کراچی سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ شائقین کی نظریں پی ایس ایل کا ہونے والا فائنل بھی ان 2ٹیموں میں اپنے شہروں کے نوجوانوں کو تلاش کرتا رہا مگر نہ ہی کراچی کنگز میں کوئی کھلاڑی کراچی کا تھا اور نہ ہی لاہور قلندر میں کوئی کھلاڑی لاہور میں پیدا ہوا تھا یہ اور بات ہے کہ ان میں کھیلنے والے کھلاڑی کرکٹ سے جنونی لگائو رکھنے اور اس میں نام پیدا کرنے کے لیے ان شہروں کا رخ ضرور کیا۔ روزنامہ جسارت نے کرکٹ میں دنیا کے عظیم کھلاڑیوں کی فہرست میں نئے خون کا تذکرہ نہ ہونے پر ملک کے لیے کھیلنے والے سابق کرکٹرز اور اس کھیل کے منتظمین نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جسارت کا یہ سوال اس وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس پر سنجیدگی سے سوچا جائے ۔جسارت نے ان سے سوال کیا تھا کہ پاکستان اب عمران خان، ظہیر عباس، جاوید میانداد اور وسیم اکرم جیسے کرکٹرز کیوں پیدا نہیں کررہا۔ ان میں سابق ٹیسٹ کرکٹر صادق محمد، سابق وکٹ کیپر اور قومی کپتان راشد لطیف، کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سیکرٹری اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق رکن جنہوں نے 34سال کے سی سی اے میں خدمات انجام دیں پروفیسر سید سراج الاسلام بخاری،دنیا کے تمام اسٹیڈیمز میں400سے زیادہ ٹیسٹ کرکٹ میچوں کو کور کرنے والے سینئر صحافی اور مبصر قمر احمد اور سابق فرسٹ کلاس کرکٹر ورلڈ ریکارڈ ہولڈر ندیم یوسف شامل ہیں جنہوں نے جسارت سے خصوصی بات چیت میں اظہار خیال کیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ٹیسٹ کرکٹر صادق محمد نے اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب نچلی سطح پر کرکٹ بہت کم رہ گئی ہے، بڑے شہروں میں گرائونڈز تک نہیں ہیں، ہمارے وقت میں مسلسل کرکٹ کھیلی جاتی تھی ۔ شہر ہو یا بیرون شہر ایسوسی ایشنز اور زونز کلبس لیگز کے ذریعے میچز اور ٹورنامنٹس کھلاتے تھے جس سے کھلاڑی نکل کر آتے تھے ۔ اس وقت کے کھلاڑی بغیر لالچ کے کھیل سمجھ کر کرکٹ کھیلتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ باقاعدہ کوئی کوچ، ٹرینر،فزیو نامی سپورٹ مینجمنٹ کا تصور نہیں تھا۔ حنیف محمد، نذر صاحب، ظہیر بھائی، آصف اقبال صبح فجر کی نماز کے بعد روزانہ جو بھی سہولت موجود تھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے اور محلے میں کھیل کر ہی آگے آئے اور دنیا میں نام پیدا کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے کرکٹ تحمل کی ہوتی تھی، اب موجودہ کھلاڑیوں کو ٹی ٹوئنٹی نے جلد باز کردیا ہے، کم سے کم اوورز میں زیادہ سے زیادہ رنز بنانے ہوتے ہیں۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق وکٹ کیپر اور کپتان راشد لطیف کا کہنا تھا کہ اب کرکٹ تیز ہوگئی ہے لیکن شہروں میں خصوصاً کراچی میں گرائونڈ ز ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے اب کرکٹ لیگز بھی اس انداز میں نہیں ہوپارہی جیسے پہلے ہوتی تھی۔ اگر نوجوانوں کو مواقع ملیں اور وہ اپنے آپ کو گروم کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مستقبل میں عمران خان، ظہیر عباس اور جاوید میانداد جیسے نامور کھلاڑی پیدا نہ ہوں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق رکن اور کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر جو کافی عرصے تک سیکرٹری بھی رہے ،پروفیسر سید سراج الاسلام بخاری جنہوں نے شہر کراچی کی کرکٹ میں اپنی زندگی کے 34سال وقف کیے ان کا کہنا تھا کہ اگر اس دور کی بات کی جائے تو سیدھا جواب یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی اب دلچسپی کھلاڑیوں کو دنیا میں مقام دلانے کی غرض سے چنائو ہے ہی نہیں۔ جس طرح وہ کسی بڑے کی سفارش پر وارد ہوتے ہیں اس بنیاد پر ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی نشست کو محفوظ بنائیں جب تک ان کو یہ ذمے داری دی گئی ہے۔ دوسرے اب نوجوانوں میں بھی اس طرح کا مزاج نہیں ہے ۔ چینلز پر کھلاڑیوں کو میدان میں دیکھ کر اور ان کے چوکوں چھکوں یا آئوٹ کرنے پر محظوظ عام شائق تو ہوسکتا ہے لیکن جس نے کرکٹر بننا ہے اس کا تو معاملہ بہت مختلف ہوتا ہے ۔ آج کتنے کھلاڑی ہیں جو صرف پاکستان سے وابستہ نہیں بلکہ دنیا کے عظیم کھلاڑیوں کو آئیڈیل بنانے کے لیے ان کی کاوشوں کو سامنے رکھتے ہوں گے؟ آج کل تو اگر قائد اعظم ٹرافی میں نام آجائے تو وہ سیلفی بنانے کو ترجیح دیتا ہے اور اسکور یا آئوٹ کرجائے تو اپنے آپ کو کرکٹ کا شہنشاہ سمجھنے لگتا ہے ۔ یہ ہی نہیں ہیڈ کوچ ، ہر شعبے کا الگ الگ کوچ ہونے کے باوجود ملک میں کوئی بھی کھلاڑی مستقل بنیاد پر لمبے عرصے کے لیے آپ کو قومی ٹیم میں نظر نہیں آئے گا۔ آپ نے ان عظیم کھلاڑیوں کے نام لے لیے جن میں سے کئی کو الحمدللہ میری سرپرستی حاصل رہی۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ڈومیسٹک کرکٹ اور قومی کرکٹ ٹیم میں گنے چنے کھلاڑیوں کے علاوہ شاہد آفریدی، انضمام، یونس، مصباح کی جھلک دیکھنے کو نہیں ملتی کرکٹ کے شہنشاہ لٹل ماسٹر حنیف محمد، ظہیر عباس ، جاوید میانداد، عمران خان اور وسیم اکرم جیسے سپوت کے معیار پر آنا اور دنیا میں ان جیسا نام پیدا کرنا تو خواب ہی لگتا ہے۔دنیا میں کرکٹ کھیل کی بات کی جائے اور ٹیسٹ میچوں کی کوریج کے حوالے سے کسی صحافی اور مبصر کا نام پوچھا جائے تو وہ صرف اور صرف قمر احمد ہی کا نام لے گا جنہوں نے 400سے زیادہ ٹیسٹ میچز کو کور کیا۔ جب ان سے اس سوال کا جواب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے نے کرکٹ کو تباہ کردیا۔ آپ اب ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کرکٹرز کو عظیم قومی ہیروز کے ساتھ ملانے کی بات کرکے توہین کے مرتکب نہ ہوجائیں۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ظہیر عباس نے جب 274رنزبنائے اور وہ اس کے بعد بھی ایک عرصے تک کھیلتے رہے تو ان کے مداح جو انگریز ہوتے تھے پہلے ہی سے اسٹیڈیم میں آکر سیٹوںپر بیٹھ جاتے جب ان سے پوچھتے تو وہ کہتے کہ ایشین بریڈمین کی بیٹنگ کو اسکرین میں دیکھ کر ایسا لگتا کہ یہ خواب ہے اور ہم اس عظیم کرکٹر کی صرف بلے بازی کو دیکھنے کے لیے ہی نہیں آتے بلکہ اس خواب کی تعبیر کو شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے والے اور ورلڈ ریکارڈ ہولڈ ر ندیم یوسف کا کہنا تھا کہ شروع میں میرٹ کا خیال رکھا جاتا تھا اور وہ کھلاڑی جو کارکردگی دکھا کر آگے آنا چاہے موقع مل جایا کرتا تھا لیکن جیسے ہی کرکٹ کو چلانے والے اداروں میں قابلیت واہلیت کو پس پشت ڈال کر باگ دوڑ اپنوں کو نوازے والوں کے ہاتھوں میں گئی تو ملک کی کرکٹ تباہ ہوگئی اور کھلاڑی کا مستقبل تاریک ہوگیا جس کی ایک مثال آپ کے سامنے میں ہوں جس نے ورلڈریکارڈ قائم کیا لیکن اقرباپروری اور پسند ناپسند کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یہ ہی نہیں میں اس وقت کی ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کو بھی جن کا خاندانی قد بہت بلند تھا اس سلسلے میں کی جانے والی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے کہا جب تک پاکستان میں انصاف قائم نہیں ہوگا کسی ادارے میں اس کے نفاذ کا تصور عبث ہے۔ اس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جب تک پاکستان کرکٹ بورڈ اور ضلعی کرکٹ کے منتظمین کلب کرکٹ کو دوبارہ زندہ نہیں کرینگے عظیم کھلاڑیوں کاپیدا ہونا مشکل ہے۔ اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر آگے آنا ہوگا اور قومی ٹیم کے چنائو میں میرٹ کو سر فہرست رکھنا ہوگا۔