ؒافکار سید ابوالاعلیٰ مودودی

68

اسلام اور ایمان
اسلام دراصل ایمان کے عملی ظہور کا دوسرا نام ہے۔ جہاں ایمان موجود ہوگا، لازماً اس کا ظہور آدمی کی عملی زندگی میں، اخلاق میں، برتاؤ میں، تعلقات کے کٹنے اور جڑنے میں، دوڑ دھوپ کے رخ میں، مذاق و مزاج کی افتاد میں، سعی و جہد کے راستوں میں، اوقات اور قوتوں اور قابلیتوں کے مصرف میں، غرض مظاہر زندگی کے ہرہر جزو میں ہوکر رہے گا۔ ان میں سے جس پہلو میں بھی اسلام کے بجائے غیر اسلام ظاہر ہو رہا ہو، یقین کرلیجیے کہ اس پہلو میں ایمان موجود نہیں ہے یا ہے تو بالکل بودا اور بے جان ہے اور اگر عملی زندگی ساری کی ساری ہی غیر مسلمانہ شان سے بسر ہو رہی ہو، تو جان لیجیے کہ دل ایمان سے خالی ہے۔ زمین اتنی بنجر ہے کہ ایمان کا بیج برگ و بار نہیں لا رہا ہے۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)
٭…٭…٭
تقویٰ
حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو۔ عبدیت کا شعور ہو۔ خدا کے سامنے اپنی ذمے داری و جواب دہی کا احساس ہو۔ اور اس بات کا زندہ اِدراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلتِ عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اِس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں و قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں، اس سرو سامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں، جو مشیتِ الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے، اور اْن انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں، جن سے قضائے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کردی ہے۔ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)
٭…٭…٭
حق و باطل
اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رَو بن جائیں تو نبی بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے اور مومنوں سے کفار کے مقابلے میں جدوجہد کرانے اور دعوتِ حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارہ سے انجام پا سکتا تھا۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقے پر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کا منشاء تو یہ ہے کہ حق کو دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکرِ صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اْس پر ایمان لائیں۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلے میں اپنا اخلاقی تفوّق ثابت کریں۔ انسانوں کے مجموعے میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال، اپنے بلند نصب العین، اپنے بہتر اْصولِ زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں۔ اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کر کے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامتِ دین ِ حق کی منزل تک پہنچیں۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلے پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرتِ قاہرہ کے زور سے افکارِ فاسدہ کو مٹا کر لوگوں میں فکرِ صالح پھیلا دے اور تمدّنِ فاسد کو نیست و نابود کر کے مدنیّتِ صالحہ تعمیر کر دے، تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اْس حکمت کے خلاف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمّے دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، اسے تصرّف کے اختیارات دیے ہیں، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مْہلت عطا کی ہے، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلہ کا ایک وقت مقرر کر دیا ہے۔ (سورۃ الانعام، حاشیہ نمبر24)