بد زبانی سے اجتناب

104

سیدنا سفیان بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرمؐ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے حق میں سب سے زیادہ خطرناک چیز کون سی ہے؟ تو آپؐ نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا کہ یہ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر زبان کی حفاظت نہ کی گئی تو یہ انسان کے لیے بڑی خطرناک ثابت ہوگی۔
اس حدیث میں زبان کی حفاظت یعنی بد زبانی سے اس کو محفوظ رکھنے کی ہدایت بیان کی گئی ہے۔ کیوں کہ ایک مسلمان کی شان بد زبانی جیسی غیر مہذب باتوں سے بہت اْونچی ہونی چاہیے، اس کی زبان سے حق وصداقت، بہبودی اور خیر خواہی اور نیکی اور بھلائی کے سوا کوئی بات نہ نکلے، نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز جزا پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اچھی بات زبان سے نکالے، ورنہ خاموش رہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھنے کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی زبان سے خیر کے سوا کچھ اور نہ نکلے۔کیوں کہ ایمان یہ بتاتا ہے کہ جیسا کرے گا ویسا بھرے گا، اگر کوئی دوسرا تمہیں برا کہے تو تم اپنی زبان سے اس کو برا نہ کہو، بلکہ خاموش ہوجاؤ۔ کیوں کہ اگر آج نہیں تو کل اس کو اس کی سزا مل کر رہے گی، جو جہنم ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے آپ سے نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے زبان کی طر ف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس کو قابو میں رکھنا، اس پر انہوں نے حیرت سے دریافت کیا کہ کیا ہم سے زبان سے کہی ہوئی باتوں پر بھی مؤاخذہ ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس زبان کی کارگزاریاں تو انسان کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیں گی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے نبی اکرمؐ سے مختصر مگر جامع نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے ان کو تین نصیحتیں فرمائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایسی بات زبان سے نکالنا جس سے دوسرے دن معافی مانگنا پڑے، مطلب یہ ہے کہ ناشائستہ اور نازیبا بات کہنے کے بعد خود ایک شریف اور مہذب انسان دل دل میں پچھتاتا ہے، پھر اپنی شرافت کی وجہ سے مخاطب سے اس کی معافی مانگتا ہے، اس سے بہتر یہ ہے کہ شروع سے ہی اپنی زبان کو قابو میں رکھا جائے اور بد زبانی سے پوری طرح اجتناب کیا جائے۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ مسلمان نہ طعنہ دیتا ہے، نہ لعنت بھیجتاہے، نہ بد زبانی کرتا ہے اور نہ فحش کلامی یعنی بیہودہ گوئی کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ باتیں مسلمان کی شان اور اسلام کے تقاضوں کے خلاف ہیں، اس لیے ان کو چھوڑ دینا ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اچھی بات کے فوائد وثمرات اور بدگوئی کے نقصانات کی طرف بڑے بلیغ انداز میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے کہ ( اے پیغمبر!) میرے بندوں سے فرما دیجیے کہ وہ بات زبان سے نکالیں جو سب سے اچھی ہو بے شک شیطان آپس میں لڑوا دیتا ہے، بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمؐ کے ذریعے سے امت مسلمہ کو یہ پیغام دلوایا، اس سے اس عمل یعنی خوش کلامی کی اہمیت اور اس کا بلند مرتبہ معلوم ہوا، پھر خوشی کلامی کے فوائد وثمرات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس سے آپس میں، میل ملاپ، مہر ومحبت اور الفت ویگانگت پیدا ہوتی ہے اور بد زبانی وبدگوئی کے برے نتائج کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ اس سے آپس میں پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور شیطان اسی گھات میں رہتا ہے کہ بد زبانی کے ذریعے سے لوگوں میں غصہ، نفرت، حسد اور نفاق کے بیج بودے، اس لیے اللہ کے بندوں کو چاہیے کہ اچھی بات زبان سے نکالیں، اچھے انداز اور لہجے میں کہیں اور نرمی سے کہیں کہ آپس میں محبت پیدا ہو۔ اسی لیے ایک حدیث شریف میں بد زبانی سے بچنے کو صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ یعنی جس طرح کسی حاجت مند کو صدقہ دے کر اس کی حاجت روائی کی جاتی ہے جس سے اس کے زخم مند مل اور دل خوش ہو جاتا ہے، اسی طرح بد زبانی سے اجتناب کرکے کسی سے نرم لہجے میں خوش کلامی سے بات کرلی جائے تو اس کا دل بھی خوش ہو جاتا ہے اور اس کو ایسا ثواب ملتا ہے صدقہ کرنے کا، کیوں کہ کسی مسلمان کے دل کو خوش کر دینا بھی صدقہ ہے۔
بد زبانی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی کو بْرا بھلا کہہ دیا یا اس کو گالی دے دی یا برے القاب سے اس کو پکار لیا، بلکہ بد زبانی کی بہت سی صورتیں ہیں اور ان تمام صورتوں پر قرآن کریم اور نبی اکرمؐ نے ایسی پابندیاں لگائی ہیں جن پر پوری طرح عمل کرنے کے بعد پورا معاشرہ بدزبانی کی برائی سے پاک وصاف ہو جائے گا۔