او ۔ آئی ۔سی… پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

304

اسلامی تعاون تنظیم، او آئی سی، کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس نائیجر کے شہر نیامے میں شروع ہو گیا ہے، اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی نیامے پہنچ چکے ہیں جہاں انہوں نے مختلف مسلم ملکوں کے وزرائے خارجہ اور تنظیم کے سیکرٹری جنرل سے ملاقاتیں کی ہیں ان ملاقاتوں کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفت گو میں پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ان ملاقاتوں کے دوران اسلامو فوبیا، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور فلسطین سمیت مسلم امہ کو در پیش مسائل پر تبادلۂ خیال کیا گیا اس کے علاوہ کورونا کے معاملہ پر بھی بات ہوئی جس نے پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور متعدد مسلم ممالک بھی کورونا کے معاشی مضمرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جناب شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی اس کانفرنس سے اسلامو فوبیا کی حوصلہ شکنی کے لیے پیغام جانا چاہئے کیونکہ مسلمانوں میں اسلاموفوبیا کے رجحان کے خلاف گہری تشویش پائی جاتی ہے وزیر خارجہ نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ اجلاس میں اسلامو فوبیا کے رجحان سے متعلق قرار داد پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب کہ کشمیر سے متعلق پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ مسلم وزرائے خارجہ اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے ملاقاتوں میں انہوں نے ان رہنمائوں کو بھارت کی جانب سے غیر قانونی طور پر اپنے زیر قبضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے مودی حکومت کے عزائم سے متعلق آگاہ کیا اور بتایا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسندانہ ہندو توا سوچ خطے میں امن و امان کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ انہوں نے ان اطلاعات کی بھی تردید کی کہ کانفرنس کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر موجود نہیں انہوں نے کہا کہ اس قسم کا پروپیگنڈہ بھارتی حکومت کی جانب سے کیا جا رہا ہے جسے بھارتی ذرائع ابلاغ اچھال رہے ہیں جب قرار دادیں سامنے آئیں گی تو حقیقت واضح ہو جائے گی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر واضح موقف سامنے آئے گا اور کانفرنس کا جو موقف پہلے تھا وہی اب بھی ہے مسئلہ فلسطین کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے جناب شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے ہم پر کوئی دبائو نہیں، فلسطین پر پاکستان آج بھی اپنے تاریخی موقف پر قائم ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں خرابی اور بگاڑ کی تردید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام معاملات معمول کے مطابق اور ٹھیک چل رہے ہیں…!اسلامی تعاون تنظیم، جب وجود میں آئی تھی تو اس سے امت مسلمہ کی ترقی، فلاح و بہبود اور مسلم دنیا کو در پیش مسائل کے حل کے حوالے سے خاصی توقعات وابستہ کی گئی تھیں ابتدائی ایام میں اس جانب پیش رفت محسوس بھی کی گئی مگر پھر اس کے اجلاسوں کی حیثیت نشستند، گفتند، برخاستند تک محدود ہو کر رہ گئی، اب اس تنظیم کے قیام کو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر اس کی کارکردگی صفر سے آگے نہیں بڑھ سکی، مسلم ممالک کو متحد اور مختلف مسائل پر متفقہ موقف اختیار کرنے میں اس تنظیم کو کائی حصہ ہے نہ ہی دنیا خصوصاً امت مسلمہ کو درپیش کسی مسئلہ کے حل میں اس کا کوئی ٹھوس اور موثر کردار اس طویل عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے۔ ہمارے محترم وزیر خارجہ جو چاہے دعوے کرتے رہیں اور جن خوش کن توقعات کا چاہئے اظہار کرتے رہیں مگر ناقابل تردید حقیقت بہرحال یہی ہے کہ مظلوم کشمیری مسلمانوں کو بھارتی فوج کے محاصرے اور کرفیو کی پابندیوں میں زندگی گزارتے چار سو اسی دن یعنی سولہ ماہ گزر چکے ہیں جب کہ آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج گزشتہ کئی برسوں سے ان پر مظالم ڈھا رہی ہے، کشمیر کے مسلمان اور وہاں کی حریت قیادت مسلسل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں خواتین کی عصمت دری اور معصوم نوجوانوں کو عقوبت خانوں میں اذیتوں سے دو چار کرنا وہاں معمول بن چکا ہے مگر مجال ہے کہ او آئی سی یا اس کے رکن ممالک میں سے کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو، بلکہ اس کے برعکس الا ماشاء اللہ او آئی سی کے اکثر ممالک بھارت کے اس ظالمانہ طرز عمل کے باوجود اس سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ فلسطین کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں وہاں بھی اسرائیل کے عرب علاقوں پر اسلحے کے زور پر قبضے اور نہتے اور بے گناہ فلسطینی مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم و ستم کے باوجود او آئی سی نے فلسطینیوں کے دکھ درد اور بے پناہ مصائب کو محسوس کرنے اور ان کے ازالہ کے لیے کوئی اقدام کرنے کی قطعی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ اس کے برعکس تنظیم کے موثر عرب ممالک مظلوم فلسطینیوں اور ان کی حماس جیسی متحرک تنظیم کو مطعون کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور اب نہایت ڈھٹائی سے ظالم، جابر اور بزور طاقت قابض اسرائیل کو خود تسلیم کرنے اور دوسرے مسلم ممالک سے تسلیم کرانے کے لیے بے چین ہو رہے ہیں یوں گنگا الٹی بہہ رہی ہے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کو ہدف تنقید بنانے یا ان کے خلاف کسی عملی اقدام کی بجائے الٹا ان کے مظالم کا نشانہ بننے والے اور ان مظلوموں کی حمایت کرنے والوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور مختلف پابندیوں میں جکڑنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔مغربی دنیا میں نبی رحمت، محسن انسانیت حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی اور اسلامی شعائر پر پابندیوں کا سلسلہ بھی طویل سے طویل تر ہو تا جا رہا ہے مگر یہاں بھی اسلامی دنیا میں حکومتی اور اجتماعی سطح پر کوئی احتجاج اور اسلاموفوبیا کی روک تھام یا اس کے سامنے بند باندھنے کے لیے کسی قسم کی سرگرمی یا اقدام کہیں نظر نہیں آ رہا۔ ان حقائق کی روشنی میں پاکستان کے محترم وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی کی او آئی سی سے وابستہ توقعات خوش فہمی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ویسے حالات کا یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ اگر او آئی سی ہمارے وزیر خارجہ کی توقعات کے عین مطابق کشمیر، فلسطین اور اسلامو فوبیا کے متعلق قراردادیں منظور بھی کر لے تو ان مظلوم خطوں کے عوام اور عالمی سطح پر جاری اسلاموفوبیا کی لہر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا ان قرارداوں کی منظوری سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ فلسطین کے مظلوم عوام کو اسرائیل کی غیر قانونی ریاست کے تسلط سے آزادی مل جائے گی ؟ یا مغربی دنیا کے انتہا پسند عناصر محسن انسانیتؐ کی شان اقدس میں گستاخیوں اور اسلامی شعائر کی توہین کی روش سے باز آ جائیں گے؟ ماضی میں منظور کی گئیں اس طرح کی قرار دادیں اس امر کی گواہ ہیں کہ قوت نافذہ سے محروم یہ قرار دادیں ہمیشہ قطعی غیر موثر اور بے کار ثابت ہوئی ہیں۔ درحقیقت ایسی قراردادوں کی حیثیت اخلاقی دبائو سے زیادہ کوئی نہیں ہوتی جسے محسوس کرنے کے لیے بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک قطعی تیار نہیں چنانچہ واحد عملی راستہ وہی ہے جو حال ہی میں آذربائی جان نے اسلامی دنیا کے مظلوموں کو دکھایا ہے کہ جراتمندانہ اقدام کے ذریعے آرمینیا کے زیر قبضہ نگورنو کارا باخ کا علاقہ بزور شمشیر آزاد کرا لیا ہے، مغربی دنیا اور بڑی طاقتوں نے اپنا پورا وزن آرمینیا کے پلڑے میں ڈال دیا مگر آذربائی جان ڈٹ گیا اور فتح اس کا مقدر بنی۔ خود کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ اس کا جتنا حصہ آج آزاد کہلاتا ہے یہ بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت کے نتیجے میں جہاد کے جرات مندانہ اقدام ہی کی برکت سے آزاد ہو سکا حالانکہ جس وقت اس جہاد کا آغاز کیا گیا پاکستان خود بھی تازہ تازہ معرض وجود میں آیا تھا اور اس کے پاس فوج تھی نہ اسلحہ اور نہ ہی اس کی معیشت مستحکم ہو سکی تھی مگر قائد اعظم نے اس بے سرو سامانی کے عالم میں جہاد کا حکم دیا اور کامیابی نے مجاہدین کے قدم چومے ۔