حسد…احمد جاوید

342

دعوت اور نصیحت کے باب میں رسول اللہؐ کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی بڑی اور غیر معمولی بات کہنی ہوتی یا کسی خاص حوالے سے دین کا مجموعی مقصود بیان فرمانا ہوتا تو دو طرح کی باتوں کو ایک دوسرے کا لازم و ملزوم بنایا کرتے تھے، اللہ اور آخرت پر ایمان اور دوسرا حسنِ اخلاق۔ آپؐ انہیں جنت میں جانے کی لازمی شرط کے طور پر بیان فرمایا کرتے تھے۔ یعنی ان کی بنیاد پر آدمی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے۔ آپؐ کی دی ہوئی بشارت کے مطابق وہ شخص جنتی ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے مسلم معاشرت کا اچھا اور فعال حصہ بننے میں کامیاب ہے۔ ہمیں یوں سمجھنا چاہیے کہ آخرت کے لیے جدو جہد خود مجھے جنت میں لے جائے گی اور اپنے اخلاقی وجود کی تکمیل کا عمل دوسروں کو بھی جنت میں رکھے گا۔ کبھی محسوس کر کے دیکھیے کہ جنت در اصل حسنِ معاشرت کا ideal ہے جس میں بنیادی سکون اس بات سے میسر آئے گا کہ دیکھو دوسرے کتنے اچھے ہیں، کتنے محبتی ہیں اور کتنے خوش ہیں۔ اس لیے جنتیوں جیسی زندگی محض انفرادی نہیں ہوتی بلکہ تعلق کے ذوق اور شعور کے ساتھ اجتماعی ہوتی ہے۔ جنت کا اشتیاق سچا ہو تو آدمی دنیا میں بھی ایک جنتی پن پیدا کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے، یعنی دنیا کو بھی ایک ایسی معاشرت میں ڈھالنے کی سعی ضرور کرتا ہے جس کی اساس اللہ کی حضوری کے احساس پر ہو۔ وہ حضوری جو فرد اور معاشرے کو حق، خیر اور حسن سے سیراب اور شاداب رکھتی ہے۔ لوگ اگر جنت میں جانے کا شوق رکھتے ہوں تو ان کی معاشرت کا ماحول جنت جیسا ہی ہو گا اور دنیا میں بھی اس حضور و سرور کا ایک قابلِ اعتبار تجربہ حاصل ہو جائے گا جو اہلِ جنت کا مستقل حال ہے۔ حضور اللہ کا اور سرور اللہ کی نعمتوں کا، دوسروں کے ساتھ مبنی بر محبت تعلق کا۔
اللہ کو سچائی سے مان لیا جائے تو اس کے کچھ نتائج زندگی میں ضرور نکلتے ہیں۔ مثلاً ذوقِ عبادت اور حسنِ اخلاق۔ ایمان میں سچائی در حقیقت تعلق باللہ کے تجربے سے پیدا ہونے والا حال ہے جو آدمی کے سارے نظامِ تعلق کو درست اساس اور صحیح رخ پر رکھتا ہے۔ اور یہی حسن ِ اخلاق کہ اپنی خوشی دوسروں کی خوشی سے مشروط ہو جائے اور اپنا دکھ دوسروں کے دکھ کا عکس بن جائے اس پس منظر میں آج مجھے ایک ایسی چیز پر بات کرنی ہے جو ایمان اور اخلاق دونوں کے لیے مہلک ہے۔ یہ ایک مرض ہے جو دنیا پرستی میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے ہمارے اندر بہت پھیل چکا ہے۔ یہ دنیا پرستی اتنا بڑا عذاب ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ کے ساتھ تعلق بھی مجروح ہو چکا ہے اور ہمارا آپس کا نظامِ تعلق بھی دیمک کھائی ہوئی لکڑی کی طرح بن چکا ہے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ زندگی میں کامیابی اور خوشحالی کا ہر دروازہ دنیا پرستی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ہی کھلتا ہے۔ جدید زندگی اور اس کی اقدار نے ہماری صلاحیت ِ تعلق، قوتِ اخلاص اور طاقت ِ ایثار سب کو کمزور کر دیا ہے۔ اور اس ہمہ جہت اخلاقی کمزوری کا تجربہ ہم میں سے ہر شخص کو ہے۔ ایسے صاحبانِ ہمت بہت کم ہیں جنہوں خود کو اس تجربہ کے گرم تنور سے باہر نکال لیا ہو۔ جدید دنیا، اس کے ادارے اور اس سے پیدا ہونے والا مزاج دین ہی کے لیے چیلنج نہیں ہے بلکہ آدمیت کے لیے بھی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ویسے دین اور انسانیت میں کوئی ایسا فاصلہ نہیں ہے جس کی بنیاد انہیں دو چیزیں تصور کیا جائے، لیکن کچھ اہل ِ دین کہلانے والوں کی غیر ذمے داری سے اور کچھ جدیدت کے وکیلوں کی منظم جدو جہد سے یہ دونوں اب دو الگ الگ چیزیں بن گئے ہیں۔ بہرحال، اس وقت غازیانِ بدر و حنین جیسے عزم کے ساتھ اس خطرے کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ ہمیں اندر سے مسمار کر رہا ہے اور ظاہر کو رنگین کر کے، ہماری زندگیوں میں طرح طرح کی راحتیں اور آسائشیں داخل کر کے ہمارے دل کو ویران کر رہا ہے۔ دل کی معموری، دل کی روشنی اور دل کی زندگی کا دار و مدار محض اور محض تعلق باللہ پر ہے۔
دل ان معنوں جوہر ِ تعلق ہے اور اسی جوہر ِ تعلق سے پھوٹنے والی محبت، معرفت اور خشیت کی روشنیاں ہمارے وجود میں کسی اندھیرے کو جگہ نہیں بنانے دیتیں۔ اللہ سے تعلق کی روح سے زندہ وجود ہمارا وہ آئیڈیل ہے جس کی کارفرمائی سے انفرادیت بھی مستند انداز سے تشکیل پاتی ہے اور اجتماعیت بھی حقیقی طور پر تعمیر ہوتی ہے۔ یہ تعلق باللہ ہی ہے جو ہماری شخصیت کو اس طرح کنڈیشن کر دیتا ہے کہ ہم اللہ کے آگے غرض مند رہتے ہیں اور لوگوں کے لیے بے غرض، اللہ کے حضور میں ہم لینے والوں کا مزاج رکھتے ہیں اور لوگوں کے درمیان دینے والے کی طبیعت۔ جدید دور میں ہماری نفسیات کو بھی اس حوالے سے اتنا مسخ کر ڈالا ہے کہ اب اپنی آدمیت کے بالکل معمولی مطالبات کی تکمیل بھی مشکل ہو گئی ہے۔ ہمارے درمیان ایک ایسی دوڑ کا میدان بچھا دیا گیا ہے اور کامیابی کا ایک بت گاڑ کر مسابقت کا ایسا حیوانی رویہ پیدا کر دیا گیا ہے جسے ہم سمجھنے کے لائق ہوتے ہیں تو اس وقت تک اس کی اصلاح کا وقت گزر چکا ہوتا ہے، اس سے نکلنے کے دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ڈوبتا ہوا آدمی جتنی بھی سانسیں لے گا وہ دراصل موت کا تنفس ہوں گی۔ زندہ رہنے کی کوشش اس کی موت کو مزید نزدیک لے آئے گی۔ غرض کامیابی کے حصول کی ایک مجنونانہ دوڑ لگی ہوئی ہے کبھی دنیا کے نام پر اور کبھی دین کے نام پر۔ بس مجھے ہر قیمت پر دوسروں سے آگے نکلنا ہے، یہ مزاج مدرسوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک اور بازاروں سے لے کر مسجدوں تک عام ہوتا جا رہا ہے۔ چلو دنیا پرستی کے جزبے سے مغلوب ہو کر آدمی ریس کا گھوڑا بن جائے تو یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہے لیکن دین کی آڑ لے کر شکاری کتوں کی دوڑ میں شامل ہو جانا بالکل سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے بھی دین کا کام کرنا ہے اور آپ کو بھی اسی دین کی خدمت کرنی ہے، لیکن مجھے اس بات سے دلچسپی نہیں ہے کہ میں بھی کامیاب ہو جاؤں اور آپ بھی سرخ رو ہو جائیں، میری زیادہ دلچسپی اس چیز سے ہے کہ آپ کو کامیاب نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپ کی وجہ سے لوگ میری طرف متوجہ نہیں ہو رہے لہٰذا کسی بھی طرح سے آپ کی غلطی ثابت ہو جائے تا کہ لوگ میری طرف آنے لگیں۔ میرا جواز آپ کی غلطی سے مشروط ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ یہ ایک عام رویہ بن گیا ہے، ہر طرف نفسا نفسی مچی ہوئی ہے۔ ایسے ماحول میں کیسا ایمان اور کہاں کا اخلاق! ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جنون یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ میرا قد بھی آپ سے لمبا ہونا چاہیے، میری صحت بھی آپ سے اچھی ہونی چاہیے، میری صورت بھی آپ سے بہتر ہونی چاہیے، میری آمدنی بھی آپ سے زیادہ ہونی چاہیے اور میری شہرت بھی آپ سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ بلکہ مجھے رشوت بھی آپ سے زیادہ لینی چاہیے اور میرے مقتولوں کی فہرست بھی آپ سے لمبی ہونی چاہیے۔ یعنی صرف اچھائی ہی میں نہیں برائی میں بھی مجھے آپ پر سبقت لینی چاہیے۔ اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی، میں خود کچھ ایسے لوگ دیکھ رکھے ہیں جو اس بات پریشان ہو جاتے ہیں کہ کوئی ان سے زیادہ ناکام ہے اور ان سے زیادہ بیمار ہے۔ وہ ناکامی اور بیماری میں بھی کسی کو اپنے آگے دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی شخصیت کا تجزیہ انسانی معیارات پر کیا جا سکتا ہے؟ اپنے انسان ہونے کی طرف سے مسلسل غفلت نے ہماری بچی کھچی انسانیت کو بھی ہمارے لیے ناگوار بنا دیا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟
جس مرض کا میں ذکر کر رہا تھا وہ اس صورتِ حال کا موجد بھی ہے اور نتیجہ بھی۔ اور وہ ہے حسد کا مرض۔ ظاہر ہے کہ جب ہمارے درمیان مسابقت کی فضا ہی خود غرضی اور حیوانیت پر قائم ہو گی تو ہم دوسروں کو اپنے تھوڑا پیچھے نہیں بلکہ بہت پیچھے دیکھنا چاہیں گے۔ ہم ایک ایسی دوڑ میں شامل ہیں کہ ہم سے آگے اگر کوئی ہیولہ اور دھندلا سا خاکہ بھی نظر آ رہا ہے تو وہ لازما قابلِ نفرت ہے۔ اب یہ ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ حسد تعلق کی مکمل نفی ہے۔ حسد اتنی تباہ کن چیز ہے کہ حاسد سے اس کی خوبیاں پوچھی جائیں گی نہ اس میں خرابیاں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک خرابی ہی اس کے مکمل طور پر خراب ہونے کا کافی ثبوت ہے۔ جیسا کہ رسول اللہؐ نے اس مفہوم میں ارشاد فرمایا کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو۔ یعنی اس کی موجودگی میں نیکیاں چاہے جتنی بھی ہوں، بے نتیجہ اور ناقابلِ اعتبار ہوں گی۔ یہ ایسی دیمک ہے جو نیکی کے بڑے سے بڑے اسٹرکچرز کو چاٹ جاتی ہے۔ اسی حدیث شریف سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حسد کی موجودگی میں نیکی محض خام خیالی ہے اور حاسد آدمی نیک ہو ہی نہیں سکتا۔ نیکی بظاہر کچھ اچھے کام کر کے فارغ ہو جانے کا نام نہیں ہے، نیکی محض فارم نہیں ہے کانٹینٹ بھی ہے، نیکی صرف فعل نہیں ہے مزاج بھی ہے اور نیکی فقط عمل نہیں ہے نیت بھی ہے۔ اخلاق طبیعت میں سرایت کر کے اعمال کے محرک بن جائیں تو یہ نیکی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو نیکی اللہ کے ساتھ تعلق میں سچائی کا مجموعی حال اور مزاج ہے۔ نیک آدمی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت، خشیت اور فرمانبرداری کے جذبے سے رہتا ہے اور اس کے ساتھ بلکہ اس کی بنیاد پر لوگوں اور چیزوں کے ساتھ بھی وہی مزاجِ تعلق اور نظمِ تعلق رکھتا ہے جو اللہ کو پسند ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ نیکی ذوقِ تعلق ہے، تعلق باللہ کا ذوق اور تعلق بالمخلوق کا ذوق۔ اسی لیے نیکی عابدانہ ہوتی ہے اور متواضع ہوتی ہے۔ حسد نیکی کے دونوں ستونوں کی کھا جاتا ہے۔ یہ اللہ سے تعلق کے قابل بھی نہیں رہنے دیتا کیونکہ حاسد ہمیشہ ناشکرا ہوتا ہے۔ جس کے دل میں حسد جڑ پکڑ لے اسے شکر کی توفیق نہیں ملتی، اور جسے شکر کی توفیق نہ ملے وہ تمام نیکیوں کے واحد ماخذ یعنی بندگی کی اولین شرط سے محروم ہے۔ شکر بندگی کی پوری عمارت کا سنگِ بنیاد ہے اور بندے کی طرح رہنے کا سب سے پہلا ادب یہ ہے کہ اللہ کے شاکر بن کر رہو۔ اس کے نعمتیں دینے پر بھی شکر گزار رہو اور اس کے نعمتیں نہ دینے پر بھی شکر گزار رہو۔ کیونکہ بندگی کی کائنا ت کا سارا نظامِ حرکت شکر پر چل رہا ہے۔ نا شکرے کی عبادت بھی محض جسم ہے روح سے خالی۔ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ حاسد شخص شکر سے محروم تو ہوتا ہی ہے، اللہ سے شکایت رکھنے کا مریض بھی بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ناشکری شکایت تک ضرور پہنچتی ہے اور حاسد آدمی حسد کے ساتھ ساتھ اللہ کی شکایت سے بھی بھرا ہوتا ہے۔
جو کبھی پڑھا تھا نہ سنا تھا، وہ اس دور میں اپنی شامتِ اعمال سے میں دیکھا ہے کہ اب حسد کے لیے مفادات کا ایک ہونا اور میدانِ کار کا مشترک ہونا ضروری نہیں رہ گیا۔ حسد مشترک کیرئیر رکھنے والوں کے درمیان ہوا کرتا تھا، اب معاملہ یوں نہیں رہ گیا۔ اب مجھے خلا باز سے بھی حسد ہے حالانکہ میری زندگی میں کوئی امکان نہیں ہے راکٹ پہ بیٹھنے کا اور چاند پر چہل قدمی کرنے کا اور مجھے ضعیفی کی عمر میں ہیوی ویٹ باکسنگ کے عالمی چمپئن سے بھی حسد ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ حسد ضروری اور فطری خود شناسی سے بھی محروم کر دیتا ہے اور حاسد کے اندر خود اپنا تصور باندھنے کی صلاحیت مسخ ہو جاتی ہے۔ دورِ جدید میں چونکہ فرد کے لیے کوئی ایسا اخلاقی آئیڈیل نہیں رہ گیا ہے جو واقعی اور عملی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں آدمی کی رہنمائی کرے، اس لیے آج کے فرد کا خود اپنے بارے میں تصور بہت سکڑا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مہمل حد تک تجریدی بھی ہے۔ شخصیت کسی آئیڈیل یا کسی بنیادی مسلمہ تصور کی روشنی میں جبلت اور شعور کے پروڈکٹو تال میل سے بنتی ہے، جدید آدمی اس تال میل سے خالی اور بے خبر ہے۔ اس کا وجود اتنی شدت کے ساتھ جبلی بن چکا ہے کہ اس وجودی سطح سے ہم آہنگ رہنے کے لیے ذہن کی ساری فعلیت بس اتنی رہ گئی ہے کہ جبلت اور جبلی داعیات کی تجدید کرتا رہے۔ اور ظاہر ہے کہ جبلت یعنی آدمی کا حیوانی وجود پیاس سے بھاگتا ہے اور سیرابی کی طرف لپکتا ہے۔ کیونکہ بڑے مقاصد پیاس کو بھڑکاتے ہیں اس لیے آج کا جبلی آدمی ان سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ اس آدمی نے تمام بڑے تصورات مثلاً خوشی مثلاً آزادی مثلاً انسان کی اصلی ساخت کو بدل کر انہیں جبلی سیاق و سباق دے دیا۔ اب تصورِ انا بھی اور آدمی کے اندر ’میں‘ ہونے کا احساس بھی ایک طبیعی کیفیت تو رکھتا ہے لیکن اس معنویت سے عاری ہے جو شخصیت کی مسلسل تجدید و توسیع کرتی رہتی ہے۔ اب انا کے وارڈروب میں بس ایک ہی جوڑا رہ گیا ہے جسے آدمی پہنتا اور اتارتا رہتا ہے۔ آج کا آدمی اول تو داخلیت رکھتا ہی نہیں ہے اور اگر کہیں اپنے اندر جھاکنے پر مجبور ہو جائے تو وہاں خلا اور اندھیرے اور دھند کے سوا اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ داخلیت اگر تاریک خلا بن جائے تو وہاں حسد کا پودا ہی پروان چڑھ سکتا ہے، ویسا ہی حسد جس کی طرف ابھی اشارہ کیا کہ حاسد اور محسود میں زیادہ چیزیں ایسی ہیں جو مشترک نہیں ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص یہ دیکھ رہا ہے کہ اب حسد قریبی رشتوں میں بھی داخل ہو گیا ہے۔ بھائی بہنوں کا حسد تو اب عام چیز بن چکی ہے، باپ بیٹوں کا حسد بھی سننے میں آتا ہے۔ رشتوں میں ایسی دڑاریں پیدا ہو گئی ہیں کہ کبھی خیال آ جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ حسد تو نہیں ہے تاہم رشتوں کا بھیانک بحران ضرور ہے کہ اب مائیں اپنی اولاد میں فرق کرنے لگی ہیں۔ جو لڑکا زیادہ کماتا ہے، اس سے زیادہ محبت ہے اور جو کم کماتا ہے اس سے یا تو کم محبت ہے یا بالکل نہیں۔ حسد اور رشتوں کے اس بحران کے اسباب یکساں ہیں۔ بھائی! پہلے بھی ماں باپ اپنی اولاد میں ترجیح کا رویہ رکھتے تھے۔ ایسا صحابہ کے دور میں بھی نہیں تھا کہ دس بچے ہیں تو وہ دس کے دس ایک ہی درجے میں محبوب ہوں۔ کچھ سے زیادہ محبت ہوتی تھی اور کچھ سے کم، لیکن بنائے محبت واضح تھی۔ وہ بچہ ماں باپ کو زیادہ محبوب ہوتا تھا جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے زیادہ محبت رکھتا تھا۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کا زیادہ محبوب ہوتا تھا۔ اس ترجیح سے یہ پتا چلتا ہے کہ جو اولاد والدین کے مقصودِ زندگی سے زیادہ قریب ہو گی، وہی انہیں زیادہ محبوب ہو گی۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ لیکن اب مقصود بدل گیا ہے، محبوب بدل گیا ہے۔ اب دنیا ہی مقصود ہے، دنیا ہی محبوب ہے اور دنیا ہی معبود ہے۔ اولاد میں سے جو بھی دنیا سے زیادہ قریب ہے اور ہمیں بھی قریب رکھتا ہے، وہ ہمیں زیادہ محبوب ہے۔
تو خیر، حسد کا پہلا مرحلہ ہے دوسرے کی کامیابی کا برا لگنا۔ یہ حسد کے خبیث درخت کا بیج ہے۔ میں اور آپ ایک جگہ انٹرویو دینے گئے، آپ منتخب ہو گئے، میں نہیں ہوا۔ اب مجھے اپنے منتخب نہ ہونے کا افسوس کم ہے اور آپ کی کامیابی کا رنج زیادہ۔ میں اپنی ناکامی تو برداشت کر لیتا ہوں مگر مجھ سے آپ کی کامیابی برداشت نہیں ہو رہی۔ یہ صورتِ حال ہو تو مجھے فورا سمجھ لینا چاہیے کہ حسد کا بیج میرے دل میں پڑ گیا ہے۔ اس بیج کو اگر اسی وقت نہ نکال پھینکا تو پھر میری ساری عمر حسد کے پیڑ کی زہریلی چھاؤں میں گزرے گی۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ میرے اندر یہ خواہش پیدا ہو جائے کہ انٹرویو میں کامیابی کے باوجود آپ کو تقرر کا خط نہ ملے اور آپ اپنی کامیابی کا پھل نہ کھا سکیں۔ اب حسد کا بیج پودا بن چکا ہے۔ اب اگر میری یہ خواہش پوری ہو جائے تو مجھے ایسی خوشی محسوس ہو جو اپنی کامیابی پر بھی نہ ہوتی ہو۔ یہ حسد کا تیسرا مرحلہ ہے، یہاں حسد مکمل ہو جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ آدمی دوسروں کے بارے میں اس طرح کا جزبہ اور رویہ رکھتا ہو تو وہ کسی بھی طرح کے تعلق کا اہل رہ جاتا ہے؟ تو مختصر یہ کہ حسد نام ہے خود غرضی کی شدت کی وجہ سے دوسرے کے نقصان کو محبوب رکھنے کا۔ یعنی میرا فائدہ دوسرے کے نقصان سے مشروط ہو جائے۔ اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔
حسد مزاج کی برائی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے خون میں کوئی زہریلی چیز گردش کر رہی ہو تو زہریلا پن پاؤں کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک ایک جیسا رہے گا۔ اس لیے یہ خرابی پوری شخصیت کو تباہ کر دیتی ہے، اس کی زد صرف دو چار اعمال پر نہیں پڑتی اس کے نتیجے میں میرا عمل اچھا دکھائی دینے کے باوجود مبنی بر شر ہو جاتا ہے۔ اب چاہے میں خدمتِ خلق کروں یا وعظ کہوں یا درس دوں یا سجدہ کروں، یہ سب کا سب ایک زہریلے وجود کا اظہار بن کر رہ جائے گا۔
شکر کے بارے میں ابھی کچھ بات کی تھی، شکر بڑی ہی قیمتی چیز ہے۔ تمام نیکیوں میں معنی اسی سے پیدا ہوتے ہیں اور حسد کا علاج بھی اسی سے ہو گا۔ شکر گزاری محض یہ نہیں ہے کہ یا اللہ! تو نے مجھے دیا، اس پر تیرا شکر ہے۔ پوری شکر گزاری یہ ہے کہ یا اللہ!مجھے نہ دیا، کسی کو تو دیا۔۔۔ اس پر بھی تیرا شکر ہے۔ یعنی اللہ کے نعمت دینے کے عمل کو دیکھ لینا بھی موجبِ شکر ہے، اور پھر اس عمل میں خود کو بھی شامل دیکھنا، یہ بھی باعثِ تشکر ہے۔ اب مجھے پتا نہیں ہے کہ اس میں سے کون سا شکر زیادہ شدت کے ساتھ ابھرتا ہے تہِ دل سے۔ مجھے یہ پتا لگانا مشکل ہو جائے تو میں واقعی شکر گزار بندہ ہوں۔ اسی طرح مجھے ایک تکلیف ہے اور آپ بھی کسی تکلیف کا شکار ہیں۔ میری حالت بگڑتی جا رہی ہے مگر آپ ٹھیک ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اگر میرے دل سے یہ آواز نکلے کہ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تیرے فضل سے فلاں صاحب کی تکلیف دور ہو گئی، سچ ہے کوئی تکلیف تیرے دستِ رحمت اور دائرۂ قدرت سے باہر نہیں ہے۔ تیرا شکر ہے کہ تو نے اس حقیقت کو مجھے بھی دکھا دیا۔ تو سمجھ گئے ناں کہ شکر کی اساس اس یقین پر ہے کہ سب نعمتیں اللہ دیتا ہے، چاہے وہ نعمتیں میرے حصے میں آئی ہوں یا نہ آئی ہوں۔ تو جو شخص دوسروں کی کامیابی کو اس طرح نہیں دیکھتا کہ گویا اس کی کامیابی نے مجھ پر شکر واجب کر دیا ہے، وہ بھلا آدمی نہیں ہے۔ ایک دوست کامیاب ہوتا ہے تو سب دوستوں پر شکر واجب ہو جاتا ہے، ایک بیمار اچھا ہو جائے تو سب بیماروں کو شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک نادار مالدار ہو جائے تو سب ناداروں کو الحمدللہ کہنا چاہیے۔
حسد کا جو علاج بتایا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کی کامیابی یا خوشی یا خوشحالی یا بلند استعدادی یا ناموری یا مقبولیت ناگوار گزرنے لگے تو اسی وقت دعا کی جائے کہ یا اللہ اس شخص پر اور فضل فرمائیے، اسے اور آگے لے جائیے۔ ایسی دعا کی عادت ڈال لی جائے تو ان شااللہ حسد کا مادہ نفس سے نکل جائے گا، طبیعت سے خارج ہو جائے گا۔ جس سے حسد محسوس ہو یا حسد کا اندیشہ ہو، اس کی لوگوں میں تعریف کرنے سے بھی آدمی حاسد بننے سے بچ سکتا ہے۔