اسٹیل ملز کے ملازمین کا معاشی قتل عام

295

کورونا کی پہلی لہر کے موقع پر پہلے ہی پاکستان میں پندرہ لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، ایک عام آدمی کی معیشت پہلے ہی انتہائی خراب ہے ایسے میں اب حکومت نے اسٹیل ملز کے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو بذریعہ ڈاک برطرفی کے خطوط ارسال کرکے انہیں بے روزگار کردیا ہے، برطرف کیے جانے والوں میں پے گروپ 2، 3، 4 کے ملازمین، جونیئر آفیسرز، اسسٹنٹ منیجرز، ڈویژنل منیجر، ڈی سی ای، ڈی جی ایم اور منیجرز بھی شامل ہیں۔ ان ملازمین کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، خبر سن کر پاکستان اسٹیل کے ایک ملازم صدمے سے انتقال کرگئے۔ اس وقت اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین جبری برطرفیوں اور نج کاری کے خلاف سراپا احتجا ج ہیں۔ آل ایمپلائز ایکشن کمیٹی پاکستان اسٹیل کے زیر اہتمام گلشن حدید فیز IIسے ٹائون شپ اللہ والی چورنگی تک ایک بڑی احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی، جس کی قیادت ایکشن کمیٹی کی سپریم کونسل کے ساتھ ساتھ گلشن حدید اور ٹائون شپ کی یونین کونسلوں کے تمام چیئرمینوں اور تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے بھی کی، ریلی میں اسٹیل ملز کے ہزاروں کارکنوں اور افسران اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے شرکت کی۔ اس فیصلے سے قبل رواں سال 9 جون کو وفاقی کابینہ نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی تجویز کی منظوری دی تھی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 3 جون 2020 کے اجلاس میں پاکستان اسٹیل کے 9 ہزار سے زائد ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی سفارش کی تھی اور اس فیصلے کے موقعے پر ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے فیصلے کی حمایت کی تھی۔ پاکستان اسٹیل ملز کو بھی اسی طرح تباہ و برباد کیا جارہا ہے جس طرح حکمرانوں نے عالمی کھیل کے مطابق دیگر ادارے تباہ کیے، المیہ یہ ہے کہ اس حوالے سے ہر حکومت کا ایک ہی کردار رہا ہے کیوں بد قسمتی سے برسرِ اقتدار آنے والی ہر حکومت کی ملک کے لیے فیصلے اپنے نہیں ہوتے، اسٹیل ملز کے حوالے سے آئی ایم ایف کا واضح دبائو رہا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز اسٹیل کی مصنوعات اور خام لوہے سے خالص لوہا نکالنے کی صلاحیت رکھنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے یہ ایک ایسا ادارہ تھا جس کا شمار دنیا میں فولاد سازی کے بڑے اداروں میں ہوتا تھا۔ اس نے 2007 میں 16ارب روپے کا منافع کمایا لیکن اس کے بعد حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کی وجہ سے ادارہ مقروض ہوگیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کی اصل بربادی کا آغاز اس وقت سے ہوا جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں یہ پابندی ختم کی گئی کہ جس کے تحت ملک میں کسی بھی ادارے کو لوہا خریدنے کے لیے پہلے اسٹیل ملز کی اجازت کی ضرورت تھی۔ پھر اس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اس کی خرابی میں اضافہ ہوا اور حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے، اس حوالے سے نواز حکومت پر تو یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی اسٹیل کے کاروبار کو تقویت دینے کے لیے اس کو بہتر کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دی، مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ فولاد سازی کے حوالے سے ملک کے اس بڑے ادارے کی تباہی میں ہر حکومت نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، نوبت با ایں جا رسید!!۔
عمران خان نے الیکشن مہم کے دوران جو بلند و بانگ دعوے کیے تھے ان میں ایک دعویٰ اسٹیل ملز کی بحالی بھی تھا، تحریک انصاف کے اسد عمر کئی بار اسٹیل ملز کی بحالی اور اسے دوبارہ چلا کر دکھانے کے عزائم کا اظہار بھی کیا تھا، انتخابی مہم کے دوران انہوں نے تو ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’میری ویڈیو ریکارڈ کر لیں تاکہ اگر میں اپنے بیان سے پیچھے ہٹوں تو کل آپ مجھے یہ دکھا کر شرمندہ کر سکیں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت آئی اور اسٹیل ملز کے مزدوروں کے خلاف کوئی فیصلہ کیا گیا تو میں تحریک انصاف کے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیل ملز کے مزدوروں کے ساتھ کھڑا رہوں گا‘‘۔ آج صرف اسد عمر ہی نہیں پوری تحریک انصاف اپنے وعدوں اور دعوئوں کے حوالے سے کہاں پر کھڑی ہے کسی کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ جماعت اسلامی سمیت ملک، عوام اور ملازمین کا درد رکھنے والی ہر جماعت اور ہر طبقہ اس صورتحال پر تشویش میں مبتلا ہے، جماعت اسلامی نے اسٹیل ملز کی مخدوش صورتحال اور ملازمین کی برطرفی کو بجا طور قابل مذمت اور شرمناک عمل اور ملازمین کا معاشی قتل عام قرارد یا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملکی اثاثہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا اسٹرٹیجک ادارہ ہے، اس ادارے کو ٹھیک طور پر چلانے کے لیے سنجیدہ قدم اٹھانا ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اسٹیل ملز کو تباہ کرنے والوں کا احتساب کرے، پرفارمنس آڈٹ کروائے اور PF گریجوٹی کے 26ارب روپے لوٹنے والوں سے رقم وصول کرے۔ انتظامی اور ٹیکنیکل عہدوں پر ایڈہاک ازم کا خاتمہ کرکے مستقل بنیادوں پر قابل ماہرین اور غیر سیاسی افراد کا تقرر یقینی بنائے۔ پاکستان اسٹیل نفع بخش ادارہ تھا جسے دانستہ طور پرتباہ کیا گیا، موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں چاہیے کہ وہ ذاتی و پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد کے لیے پاکستان اسٹیل اور اس کے ملازمین کی بحالی کے لیے متحد ہوکر جدوجہد کریں اور ملازمین کی بحالی کے لیے حکومت پر زور دیں۔