رواں ہفتے کے آغاز میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا جس کے مطابق پالیسی ریٹ 7 فی صد برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شرح سود میں کمی کے باعث برآمدات میں اضافہ ہوا اور تجارتی خسارے میں کمی آئی۔ مینوفیکچرنگ شعبے کے کئی سیکٹرز میں پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ اہم مسئلہ جس کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہے یعنی مہنگائی، اس کا اعتراف اسٹیٹ بینک نے بھی کیا کہ تمام ہی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے مجموعی افراط زر کی شرح بہت بلند ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دن مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی صدارت میں نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں تمام ہی غذائی اشیا سبزیاں، گوشت، پولٹری، آٹا، چینی، چاول وغیرہ کی قیمتوں کا جائزہ لیا گیا۔ یہ میٹنگ جو وفاقی سطح پر منعقد ہوئی اس میں سیکرٹری خزانہ، تمام صوبائی چیف سیکرٹریز اور دوسرے متعلقہ اداروں کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔ لیکن بیوروکریسی کے تمام ہی کرتا دھرتا اس میٹنگ میں مشیر خزانہ کو یہی رپورٹ دے رہے تھے کہ قیمتوں میں استحکام ہے چند اشیا کی قیمتوں میں تھوڑا بہت اضافہ ہے، ٹماٹر کی فصل آنے والی ہے اس سے ٹماٹر سستا ہوجائے گا، گنے کی کرشنگ شروع ہوگئی ہے، چینی کی قیمتوں میں کمی آجائے گی، باقاعدگی سے گندم فلور ملوں کو جاری کی جارہی ہے جس سے آٹے کے نرخ نیچے آجائیں گے۔
اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہ مہنگائی جس سے عوام چیخ رہے ہیں وزرا اور وزیراعظم میٹنگ کررہے ہیں۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے اونچے اونچے دعوے کررہے ہیں۔ بیورو کریسی کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز اپنے اپنے صوبوں کے بارے میں سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں اور حکومت کو مہنگائی میں کمی کا یقین دلا رہے ہیں۔
اس وقت سبزی، گوشت، پولٹری، دودھ اور دہی میں مسئلہ مڈل مین، ہول سیلرز اور ریٹیلرز کا ہے۔ مڈل مین یا ہول سیلرز انتہائی سستے داموں، غذائی اشیا خریدتا ہے۔ مہنگا کرکے ریٹیلرز کو فروخت کرتا ہے اور میرے اور آپ کے محلے کے دکاندار انتہائی مہنگے داموں چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ ہر شہر اور ہر قصبے میں پرائس کمیٹیاں کیا کررہی ہیں۔
معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مہنگائی میں اضافہ اشیا کی طلب یا رسد میں خلل پڑنے سے ہوتا ہے۔ مثلاً رمضان المبارک میں پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ طلب میں اضافے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت جو غذائی اشیا کی قیمتوں میں جو بے تحاشا اضافہ ہے اس کی وجہ رسد متوازن نہیں ہے۔ کہیں ذخیرہ اندوزی ہے، کہیں کارٹلائزیشن ہے، کہیں مصنوعی قلت ہے۔ اسی طرح مخلف اشیا کی پیداوار اور اُن کے استعمال کے مکمل اعداد و شمار نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں آلو کی پیداوار 4 ملین ٹن ہے جب کہ ملک میں نصف پیداوار کا استعمال ہے باقی برآمد کردی جاتی ہے لیکن اگر ملکی ضرورت کو نظر انداز کرتے ہوئے آلو کی زیادہ مقدار برآمد کردیا جائے تو ملک میں قلت ہوجائے گی اور قیمتیں اوپر چلی جائیں گی۔ پیاز کی پیداوار تقریباً 2 ملین ٹن ہے جو پنجاب اور سندھ کے مختلف اضلاع میں کاشت کی جاتی ہے، بازار میں آج کل بہت مہنگی فروخت ہورہی ہے۔ چناں چہ حکومت نے اس کی برآمد پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ اس پر پیاز کے کاشت کار احتجاج کررہے ہیں کہ ہمیں برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ ٹماٹر جو اس وقت ڈیڑھ سو سے دو سو روپے کلو بک رہا ہے، سردیوں کی فصل آنے پر یہ سستا ہوجاتا ہے اور سو روپے کا تین کلو اور چار کلو فروخت ہوتا ہے۔ بعض اوقات ٹماٹر کی قیمت اتنی گر جاتی ہے کہ اس کے کاشت کاروں کو پیداواری لاگت تک نہیں ملتی اور وہ فصل کو آگ لگادیتے ہیں۔ مہنگائی سے متعلق یہ تمام معاملات اور پہلوئوں کا تعلق انتہائی نچلی سطح سے ہے اور ان پر توجہ دیے بغیر غذائی اشیا کی قیمتیں کنٹرول میں نہیں آسکتیں۔