بالآخر نونہال بدل گیا

213

اور ہمدرد نونہال بدل گیا۔ اکتوبر ۲۰۲۰ء کا شمارہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ حیرت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ نونہال اتنے برس تک ایک ہی روٹین میں چلتا رہا۔ گزشتہ سال اس میں چند تبدیلیاں آئیں، لیکن وہ تبدیلیاں زیادہ اچھی نہیں تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی رسالے سے ذاتی انتقام لینے پر اُتر آیا ہے۔ سلیم مغل صاحب مدیر اعلیٰ بنادیے گئے تھے، لیکن ان سے بات کرکے لگتا تھا کہ اختیارات کے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ حتیٰ کہ نونہال جیسے ادارے میں ایک ڈھنگ کا ڈایزائنر تک موجود نہیں۔
اکتوبر میں ایک پرائیوٹ ادارے کے زیر سایہ ہمدرد کا شمارہ چھپ کر آیا۔ پہلی نظر میں تو ہم سمجھے کہ شاید ریڈرز ڈائجسٹ اُٹھا لائے ہیں۔ سرورق کی ترتیب سے لیکر اس پر موجود ہیڈنگز کی ترتیب یوں تھی جیسے ریڈرز ڈائجسٹ کی ہوتی ہے یا پھر پاکستان کا اُردو ڈائجسٹ۔ (اُردو ڈائجسٹ بھی ریڈرز ڈائجسٹ کے تتبع میں نکالا گیا ہے)
نونہال کے صفحات بڑھا کر اسے مکمل رنگین کردیا گیا اور سب سے بڑا کام یہ ہوا کہ اس کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھوتی ہوئی /-۱۰۰ روپے رکھی گئی۔ جیسے پورے ملک میں ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھورہی ہے، اس کا اثر اگر یہاں آیا تو اس میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اکتوبر کا شمارہ چوں کہ اس کمپنی کا پہلا شمارہ تھا اس لیے اُردو فونٹ کا مسئلہ رہا، جسے اگلے نومبر کے شمارے میں پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ البتہ نونہال کی لوح کا آئیڈیا تو عمدہ ہے لیکن لوگو کسی پروفیشنل سے بنوانا چاہیے۔ اُردو کتابت کرنے والے کم تو ہوئے لیکن ختم نہیں ہوئے اور اب تو انیس بیگ جیسے لوگ تو بہت ہی عمدہ قسم کے لوگو بنا رہے ہیں۔
رسالے کو تقریباً کہانیوں سے مضامین میں تبدیل کردیا گیا۔ کہانیاں کم اور مضامین کی تعداد زیادہ رکھی گئی ہے۔ ہمارے خیال میں کہانیوں کا حصہ ہر صورت زیادہ ہونا چاہیے۔ اس کی ایک وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نونہال کہانیوں پر مشتمل رسالہ رہا ہے۔ ڈیزائننگ کے اعتبار سے تبدیلیاں بالکل ٹھیک ہیں لیکن اندر کا مواد کہانیوں ہی کے ذریعے پُر کشش ہوتا ہے۔
انگریزی حصے میں بھی یہ صورت حال ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ انگریزی اور اردو میگزین ایک ساتھ نکالنے کے اُردو اور انگریزی رسالہ الگ الگ نکالا جاتا۔ ابھی ایک عجیب قسم کا ملغوبہ لگ رہا ہے۔ پُر کشش ڈیزائننگ اگرچہ رسالے کا مجموعی طور پر اچھا تاثر بنارہی ہے، لیکن اس چکر میں اس کی روح متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ حکیم محمد سعید کے انگریزی نام کو بھی معروف طریقے سے لکھنے کے بجائے غیر معروف طریقے سے لکھا جارہا ہے، اس کی کیا توجیہ ہے، معلوم نہیں۔
میرا تعلق چوں کہ بچوں کے ادب سے ہے، اس لیے بچوں کے ادب میں آج کل کیا چل رہا ہے، جاننے کی کوشش رہتی ہے اور نونہال ان رسالوں میں شامل ہے جسے میں آج بھی پورا پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس رسالے میں ہونے والی تبدیلیوں سے آہستہ آہستہ بچے مانوس ہوجائیں گے، بشرطیکہ اس میں قارئین کی دلچسپی کا خیال رکھا جائے۔
ہمدرد نونہال کی اپنی ایک تاریخ ہے، اور اس تاریخ کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’حکیم سعید‘ کو بچوں سے خصوصی لگائو تھا اور اس لگائو کی عملی شکل ہمدرد نونہال میں نظر آتا ہے۔ ہمدرد نونہال کا آغاز ہمدرد فائونڈیشن کے بانی حکیم سعید نے ۱۹۵۳ء میں کیا اور اس کے پہلے مدیر ان میں فریدہ ہمدرد، ثریا ہمدرد اور مسعود احمد برکاتی کا نام شمار ہوتا ہے۔ ’مسعو احمد برکاتی‘ تاحیات مدیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ مسعود احمد برکاتی کو دو اعزاز حاصل ہوئے۔ ایک یہ کہ وہ کسی بھی رسالے کے سب سے زیادہ عرصہ رہنے والے مدیر رہے۔ دوم یہ کہ نومبر ۱۹۸۲ء میں اُنہوں نے نو نہال ہی میں بچوں کے لیے پہلاسفر نامہ ’’دو مسافر دو ملک‘‘ کے نام سے لکھا جو قسط وار شائع ہوا۔
نونہال کا سائز وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا اور اب ایک طویل عرصے سے وہ ۸/ا۳۰×۲۰ کے سائز میں شائع ہورہا ہے۔ رسالے کا ابتدا میں نام صرف نونہال تھا جو اپریل ۱۹۵۶ء میں معمولی اضافے کے ساتھ ہمدرد نونہال ہوگیا۔ آج کل ہمدرد نونہال ایک طویل عرصے سے خاص نمبر کے عنوان سے صرف سالنامے شائع کر رہا ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب نونہال نے بھی موضوعاتی خاص نمبرز شائع کیے۔ ان خاص نمبروں میں آزادی کے علم بردار نمبر، افریشا کی کہانیاں نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر، پاکیزہ نمبر وغیرہ شامل ہیں۔ نونہال نے کئی نسلوں کی تعلیم وتربیت میں اہم کر دار ادا کیا ہے اور بہت سارے ادیب وشاعر ہمدرد نونہال ہی کے ذریعے بڑے قلم کار بنے ہیں۔ ابتدا میں بڑے ادیبوں نے ہمدرد نو نہال کو اپنی تحریروں اور نظموں سے سجایا۔ ان بڑے ناموں میں مسعود احمد برکاتی کے علاوہ رئیس امروہوی، آغا اشرف، ملاواحدی، قمر ہاشمی، محشر بدایونی، رشید احمد بٹ، محمد انور بھوپالی، کشور ناہید، رئیس فاطمہ، معراج، ڈاکٹر رئوف پاریکھ وغیرہ کے نام نظر آتے ہیں۔
ایک اہم چیز جو اس تبدیلی کی لہر میں نہیں آئی وہ اس رسالے کا سائز ہے۔ پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے جو رسالہ نکالے جاتے ہیں اس کا سائز قارئین کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے لیے عموماً بڑے سائز میں رسالہ شائع کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم وتربیت، پھول، ذوق وشوق، الف نگر، اقرا وغیرہ بڑے سائز میں شائع ہوتے ہیں۔ جو قریباً قریباً اے فور سائز کہلاتا ہے۔ تھوڑے بڑے بچوں کے لیے جو رسالے نکلتے ہیں اس کا سائز اے فور کا آدھا ہوتا ہے۔ ماہنامہ ساتھی اس کی مثال ہے۔
نونہال بھی اب تک چھوٹے بچوں کا رسالہ شمار ہوتا ہے۔ اس کا سائز اس کے قارئین کے مطابق نہیں ہے۔ اب جبکہ اتنی ساری تبدیلیاں کر ہی دی گئی تھیں تو رسالے کے سائز کو بھی دیکھ لینے میں بھلا حرج ہی کیا تھا؟