کورونا کی ہلاکت خیزی اور سماجی رویے

213

 

اگر آپ کے اہل خانہ اور دیگر عزیز و اقارب جن کی عمریں چالیس سال سے زائد ہیں ابھی تک کورونا وائرس کی وبا سے متاثر نہیں ہوئے تو وہ یقینا خوش قسمت ہیں لیکن اگر وہ کسی طرح کی احتیاط نہیں برت رہے یا ان کے نزدیک بھی کورونا وائرس محض ایک سازشی تھیوری ہے تو ان کے لیے بری خبر یہ ہے کہ کراچی کے نو بڑے اسپتالوں میں آئی سی یو بیڈز کورونا وائرس سے متاثر مریضوں سے بھر چکے ہیں اور ان تمام بڑے اسپتالوں بشمول جناح اسپتال، آغا خان اسپتال، لیاقت نیشنل اسپتال، انڈس اسپتال اور ساؤتھ سٹی اسپتال سمیت دیگر کئی اسپتالوں نے مریض لینا بند کر دیے ہیں۔ تقریباً یہی صورتحال پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ہے جہاں سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کے لیے جگہ ختم ہو چکی ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کا تو ابھی محض آغاز ہے۔ اس وقت ملک میں سب سے بری صورتحال کراچی میں ہے جہاں ہر سو میں سے تقریباً 19 افراد جن کا کورونا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے ان میں اس مرض کی تشخیص ہو رہی ہے جبکہ سندھ بھر میں کورونا وائرس کی شرح تقریباً دس فی صد ہے۔
پاکستان بھر کے انفیکشن ڈیزیز یا متعدی امراض کے ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی دوسری لہر انتہائی خطرناک ثابت ہو رہی ہے لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ وائرس زیادہ خوفناک ہو گیا ہے یا اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ سماجی رویے ہیں کیونکہ لوگوں نے اس وبا کو بالکل بھی سنجیدہ لینا چھوڑ دیا ہے اور ایک سروے کے مطابق پورے ملک میں صرف بیس سے تیس فی صد افراد روزانہ ماسک پہن رہے ہیں جن میں سے اکثریت ماسک جس طریقے سے استعمال کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں ان کو فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر اسلام آباد کے مطابق پورے پاکستان جمعرات کی شام میں سات ہزار آٹھ سو پچاس افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 76 فی صد افراد 50 سے 80 سال تک کی عمر کے تھے جبکہ ایک ہزار تیس افراد چالیس سے پچاس سال تک کی عمر کے بھی تھے۔ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے حوالے سے سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک اس کی دوسری لہر سے ایسے وقت میں متاثر ہو رہے ہیں جب کہ نہ تو اس مرض کے علاج کے لیے کوئی موثر دوا ایجاد ہو پائی ہے اور نہ اس مرض سے بچنے کے لیے ابھی تک کوئی ویکسین مارکیٹ میں آئی ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق دنیا میں اس وقت کئی ویکسینز کی تیاری اپنے آخری مراحل میں ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان میں سے کوئی بھی ویکسین اگلے سال جون یا جولائی سے پہلے عوام کے لیے میسر نہیں ہوگی جبکہ دوسری جانب اس وقت دنیا میں موجود کوئی بھی دوا ایسی نہیں جسے اس مرض کا مکمل یا ادھورا علاج ہی کہا جا سکے۔
عالمی سطح پر سب سے بری صورتحال اس وقت امریکا کی ہے جہاں یومیہ ایک لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ امریکا جیسے ملک میں روزانہ ہلاکتوں کی تعداد 2000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ برطانیہ، جرمنی، برازیل، ایران، میکسیکو اور دیگر کئی ممالک میں روزانہ سیکڑوں افراد اس وبا کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، دنیا کے بیش تر ممالک میں لاک ڈاؤن سمیت سخت پابندیاں لگائی جا چکی ہیں، لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد ہیں جن کا مقصد اس وبا کے پھیلاؤ کو کم سے کم رکھنا ہے تاکہ ان ممالک کے صحت کے نظام پر اتنا بوجھ نہ پڑے کہ پورا نظام بیٹھ جائے اور اس کے بعد کسی کے لیے کوئی جائے امان نہ بچے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ بڑی تعداد میں صحت سے وابستہ افراد بشمول ڈاکٹرز، نرسیں اور دیگر عملہ اس وبا کا شکار ہوتا جا رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان افراد کا کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں سے براہ راست تعلق ہے، جبکہ اس مرض کے نتیجے میں پوری دنیا میں ہزاروں ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ جاں بحق ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں مریضوں کو پہنچائے جانے والی طبی سہولتوں میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق ملک میں اب تک دس ہزار سے زائد طبی عملہ جن میں قابل ذکر تعداد ڈاکٹروں کی ہے کورونا وائرس سے متاثر ہو چکا ہے جبکہ ان متاثرہ افراد کی بڑی تعداد یعنی 99 افراد جن میں 70 ڈاکٹرز، 26 پیرا میڈیکل عملہ، دونرسیں اور ایک میڈیکل کا طالب علم اس وبا کے نتیجے میں جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 700 کے قریب طبی عملہ اس وقت اپنے گھروں اور اسپتالوں میں زیر علاج ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق کورونا کے نتیجے میں پاکستان میں تقریباً روزانہ 60 ہلاکتیں اور تین ہزار روزانہ کیس ایک بہت بڑے طوفان کا نقطہ آغاز ہے، پاکستانی قوم کے سماجی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، کسی موثر ویکسین کی عدم موجودگی اور علاج کی عدم دستیابی کی صورت میں خدشہ یہ ہے کہ اس وبا کا نقطہ عروج دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں ہوگا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ ہلاکتوں کی تعداد تین سو تک جا سکتی ہے، ماہرین کے مطابق اس صورتحال میں اسپتالوں میں جگہ بالکل ختم ہوچکی ہوگی اور مریضوں کے گھروں میں مرنے کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہو جائے گا۔
اس صورتحال میں عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ماہرین کی ہدایات پر عمل کیا جائے، پرہجوم جگہوں پر جانے سے گریز کیا جائے، ماسک کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنایا جائے، صابن سے بار بار ہاتھ دھونے یا سینیٹائز کرنے کو اپنی عادت بنا لیا جائے اور اپنے ہاتھوں سے چہرے کو چھونے سے حتی الامکان گریز کیا جائے تو اس وبا سے بہت حد تک محفوظ رہا جا سکتا ہے۔