کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام صحافیوں کے لئے ایک روز ہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

281

کراچی(رپورٹ؛منیر عقیل انصاری) کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے فنانشل اینڈسائبر کرائم رپورٹنگ کے حوالے سے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیاگیا۔

ورکشاپ میں صحافیوں کو فنانشل اینڈسائبر کرائم، سوشل میڈیا کرائم، بینکنگ فراڈ، موبائل فون سیفٹی ٹولز اور دیگر موضوعات پر بہتر رپورٹنگ کے حوالے سے خصوصی تربیت دی گئی،ورکشاپ میں کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران،سیکرٹری ارمان صابر،جوائنٹ سیکر ٹری ثاقب صغیر،خازن راجہ کامران،گورننگ باڈی کے زین علی،لیاقت مغل،سابق سیکرٹری اے ایچ خانزادہ سمیت پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی بڑی تعدادنے شرکت کی۔

ورکشاپ میں فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے ڈپٹی ڈائر یکٹر احمد زعیم،عبد الغفار اور سینئر صحافی عمران خان نے شرکا ء کو لیکچر دیا،ورکشاپ30نومبر بروز پیرسہ پہر 3 تا شام6 بجے کراچی پریس کلب میں منعقد کی گئی۔کراچی پریس کلب کے ارکان اور دیگر صحافیوں نے آن لائن رجسڑیشن کروا کر بڑی تعداد میں شرکت کی ہیں۔

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائر یکٹر احمد زعیم نے ورکشاپ کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سائبر کرائم قانون اور اس کے استعمال کے حوالے سے نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس جدید دور میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہر کوئی حسب ضرورت کر رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف سائبر کرائم کی واردات بھی تیز سے ہو رہی ہے۔موبائیل ہیک، انٹر نیٹ کرائم، آن لائن بینکنگ سے جڑے فراڈ اور دیگر کمپیوٹر کی مدد سے کیے جانے والے کرائم دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ورکشاپ میں صحافیوں کو انٹرنیٹ، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کی احتیاطی تدابیر کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی۔سائبر کرائم، ہیکنگ، انٹرنیٹ، موبائیل فون اور کمپیوٹر کا صحیح استعمال اور ضروری ہدایات دی،انہوں نے کہا کہ غیر ضروری اپیلکیشن سافٹ وئیر کو موبائیل فون میں انسٹال کرنے سے گریز کریں اور خاص کر خواتین اپنے انفرادی تصاویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے گریز کریں۔

احمد زعیم نے کہا کہ سائبر سیکیورٹی ریاست کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ملک میں فنانشل کرائم کا سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ایف آئی اے میں آن لائن شکایات سسٹم متعارف کرادیا ہے۔ آن لائن ہراسانی ایکٹ آچکا ہے۔اب ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون تیار ہو رہا ہے۔ابھی اس قانون میں بھی کام کی ضرورت ہے کیونکہ ٹیکنالوجی مستقل آگے بڑھتی جارہی ہے،ہمارے ابھی تک سماجی رابطوں کے اداروں سے معاہدے نہیں ہوئے ہیں جن کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ہم نے ای کامرس کو اپنا تو لیا ہے مگر اس کا شعور نہیں دیا گیا۔سم کی معلومات کے حوالے سے پی ٹی اے ہمارے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم کے حوالے سے ایف آئی اے2007سے کام کررہی ہے۔ملک بھر میں اس قت 15تھانے قائم ہیں۔ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر کے نیچے تین ڈپٹی ڈائریکٹر کام کرتے ہیں۔اس حوالے سے کراچی میں سب سے زیادہ شکایات آتی ہیں جبکہ لاہور دوسرے نمبر پر ہے۔ایڈیشنل ڈائریکٹر کو اسلام آباد سے کنٹرول کیا جاتا ہے،یہ ایک مرکزی نظام ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں ہمارا دفتر گلستان جوہر میں تھا جہاں شکایت کنندگان کو پہنچنے میں دشواری پیش آتی تھی۔اب ہم نے اس میں یہ آسانی پیدا کی ہے کہ جرم جس شہر میں بھی ہوگا وہیں اس کی شکایت درج ہوگی۔ایف آئی اے کا سائبر کرائم کا واحد شعبہ ہے جو اس وقت 80ہزار سے زاید شکایات پر کام کررہا ہے۔ہم اپنے وسائل کو بڑھارہے ہیں اور کوشش ہے کہ شکایت کا جلد سے جلد تدارک ہو سکے۔خواتین کی تصاویر کے حوالے سے ہم نے کئی کیسز کو محض چند گھنٹوں میں حل کیا ہے۔کچھ کیسز میں ریکارڈ منگوانے میں وقت لگتا ہے۔لوگ اس تاخیر پر ناراض ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ہم نے کافی چیزیں کی ہیں۔ہمارا ٹوئٹر اکاؤنٹ فعال ہے۔فیک پروفائل کیسز بھی بہت آتے ہیں۔اس جرائم کے خاتمے اور عوام کو اعتماد میں لینے کے لیے ہمیں صحافیوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ہمیں مثبت چیزوں کو سامنے لانا ہوگا۔جرائم سے بچنے کے لیے عوام کو محتاط رہنا ہوگا۔آپ کا فیس بک پروفائل سکیورٹی کے ٹول کو پورا کرتا ہے تو آپ قدرے محفوظ ہیں۔اپنی آئی ڈی کو فون سے کنٹرول میں رکھیں۔اگر آپکا فیس بک پروفائل ہیک ہوا ہے تو فیس بک ازخود شکایت کو جلدی حل کرسکتا ہے۔براہ راست رابطہ کرنے پر ان کی ایس او پی بہت بہتر ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیس بک کی اپنی گائڈلائنز ہیں۔جرم کی تعریف انکی ہماری الگ ہے۔آزادی اظہار رائے کے دائرہ کاراور اپنی اپنی کمیونٹی گائڈ لائنز کے تحت وہ بہت سارے معاملات میں ہم سے تعاون نہیں کرتے ہیں تاہم خواتین کی تصاویریا بلیک میلنگ والے معاملے میں فیس بک نے اچھا رسپانس دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تصاویر خواتین کی غلطی سے ہی لیک ہوتی ہیں۔ مالی معاملات میں سائبر کرائم کو قابو کرنے میں مشکلات ہیں۔ایس او پی کو فالو کرنا ہوگا۔ضروری ہے کہ سائبر کرائم کا تفتیشی افسر متعلقہ فیلڈ کی تکنیکی مہارت بھی رکھتا ہو۔اگر کسی دوسرے ملک سے جرم ہوا ہے تو کیا کرنا ہوگا۔اس کیلیے معاہدے ہو رہے ہیں۔سائبر کرائم سرحدوں سے ماورا ہے۔

سائبر سیکیورٹی کیلیے جوآلہ استعمال ہو اس کو تحفظ دینا آپ کا کام ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے دوران لگنے والے لاک ڈاؤن میں سائبر کرائم میں ریکارڈ اضاف ہوا ہے۔بینک بھی آن لائن ٹرانزیکشن کروا رہے ہیں۔: اپنے مالی معاملات کو اگر آپ فون یا کمپیوٹر سے ڈیل کرتے ہیں تو بھر پور احتیاط کی ضرورت ہے۔عوام میں اس حوالے سے شعور کی تاحال کمی ہے۔انہوں نے کہا کہ آن لائن ہراسانی ایکٹ آچکا ہے۔اب ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون تیار ہو رہا ہے۔ابھی اس قانون میں بھی کام کی ضرورت ہے کیونکہ ٹیکنالوجی مستقل آگے بڑھتی جدت اپناتی جا رہی ہے۔ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائر یکٹرعبد الغفا ر نے کہا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سیل میں شکایات درج کرانے کے لیے آن لائن پوٹل پر کال کی جاتی ہے پھر اس کی تصدیق کے لیے دفتر آنا پڑتا ہے پھر دستیاب شواہد کی روشنی میں تفتیش اور مسئلہ کے حل کی کوشش کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔سائبر کرائم ہر وہ جرم ہے جس میں الیکٹرانک گیجٹ انٹرنیٹ کے سہارے استعمال ہو۔کسی کا موبائل اسکریچ کارڈ بھی کہیں اور چارج ہوا تو بھی وہ سائبر کرائم سے امید لگا تا ہے اور اگر کسی کے کے کروڑوں روپے چوری ہوئے تو وہ بھی ہماری طرف دیکھتا ہے۔ہم کسی کو منع نہیں کرتے ہیں۔سائبر کی ترتیب میں آنے والا ہر جرم ہمارے دائرے میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بینک اسلامی کے سیکیورٹی بریچ سے 90 منٹ میں 6.1 ملین ڈالر پاکستان سے باہر نکل گئے۔کورونا کے دوران 8000 شکایات توحبیب بینک لے آیا۔طرح طرح کے جرائم ہیں جو ہمارے اطراف گھرے گیجٹس کی بدولت انجام پاتے ہیں۔کئی کیسز میں تو متاثرہ کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔اکثر کمپلینٹ مکمل ہی نہیں ہوتیں۔اکثر میں سیکیورٹی بریچ کا ذمہ دار خود اکاؤنٹ ہولڈرز ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے ابھی تک سماجی رابطوں کے اداروں سے معاہدے نہیں ہوئے ہیں۔اس ضمن میں خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ کچھ ڈیجیٹل ایکسپرٹس ڈیٹا ریکوری کے لیے ہمارے پاس موجود ہیں۔کسی معاملے پر کسی موبائل آپریٹر سے ڈیٹا مانگیں تو 500 نمبر دیتے ہیں۔ 500 نمبروں میں جلد از جلد ڈیٹا ڈھونڈنامشکل امر ہے۔معاملہ منٹوں میں سم بدلنے کے اندر بدل جاتا ہے۔ہمار ے ساتھ پی ٹی اے کوئی تعاون نہیں کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب برانچ لیس بینکنگ ہوگئی ہے تمام جعلی دستاویز پر کام ہو جاتا ہے۔ای کامرس کو اپنا تو لیا گیا ہے مگر اس کا شعور نہیں دیا گیا۔یو فون، جیز ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھل گئے مگر ایس او پیز پر کام نہیں کیا جاتا ہے۔

سائبر کرائم والے ممالک میں امریکہ اور چین سر فہرست ہیں۔پاکستان پہلے بیس ممالک میں شامل نہیں ہے ہر وہ جرم جو کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کے زریعہ کیا جائے سائبر کرائم کہلاتا ہے،آپ کے کمپیوٹر یا موبائل میں گھس کر سیکیورٹی توڑ کر آپ کا ڈیٹا چرا کر یہ کام کیا جاتا ہے،سائبر کرائم کے زریعے ای میل پر دھمکیاں،ہیکنگ،چائلڈ پورن،منی لانڈرنگ،اسلحہ فروخت کی شکلیں عام ہیں،2019ء میں بھی خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں کمی نہیں آسکی ہے، رواں سال 7 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں۔

سینئر صحافی عمران خان نے ورکشاپ کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ رپورٹر سائبر کرائم کے حوالے سے صرف ابتدائی رپورٹنگ کرتے ہیں اس کا فالو اپ نہیں کرتے ہیں،رپورٹر کو چاہیے کے وہ ایف آئی اے کے حوالے سے بھی رپورٹنگ کریں تاکہ عام لوگوں کو بھی سائبر کرائم کے حوالے سے آگاہی ہو سکیں۔

ورکشاپ کہ اختتام پر کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران اور سیکرٹری ارمان صابر نے کراچی پریس کلب کی کی جانب سے صحافیوں کیلئے منعقد کی گئی ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کے کامیاب انعقاد پر مہمانوں کا شکریہ ادا کیا،اور کہا کہ اس طرح کی ورکشاپ کا مقصد صحافیوں کی صلاحتوں میں نکھار پیدا کرنا اور صحافیوں کے کیرئیر کو طوالت بخشنا ہےایک صحافی کے لیے ضروری ہے کہ جس کے بارے میں رپو رٹنگ کی جا رہی ہو اس کے بارے سے مکمل آگاہی ہونا ضروری ہیں۔ کراچی پریس کلب ایف آئی اے کے تعاون سے صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے آئندہ بھی اس طرح کی ورکشاپس کا انعقاد کر ے گی۔

آخر میں کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران، سیکرٹری ارمان صابر، جوائنٹ سیکر ٹری ثاقب صغیر،خازن راجہ کامران،گورننگ باڈی کے زین علی اور لیاقت مغل نے مہمانوں کو سندھ کی روایتی اجراک، کراچی پریس کلب کی شیلڈ اور ورکشاپ میں شریک شرکاء کو اسناد پیش کیے۔