حیوانی ہمدردی

142

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزادرکا کہنا ہے وہ قومی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ خواہ لوگ انہیں چکنا گھڑا کیوں نہ سمجھیں، سمجھنے والے تو خدا جانے انہیں کیا کچھ سمجھتے ہیں۔ موصوف کا ارشاد ہے کہ کچھ ملک دشمن عناصر ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کررہے ہیں ان کا مقصد اداروں کو متنازع بنانا ہے تاکہ تحریک انصاف کی حکومت کو بنانا حکومت قرار دیا جائے۔ مگر عوام انہیں مسترد کرچکے ہیں وہ اس حقیقت کا ادارک بھی کرچکے ہیں کہ یہ مخصوص ٹولہ ملک و قوم کا ہمدرد نہیں عوام سے مخلص ہونا ان کا منشور ہی نہیں ان کا ایجنڈا ملک میں افراتفری پھیلا کر خانہ جنگی کی راہ ہموار کرنا ہے حضرت بزدار نے یہ انکشاف بھی فرمایا ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہے، اگر تحریک انصاف مقبولیت کی منزل سر کر چکی ہے تو اس کا نام جہانگیر ترین ہونا چاہیے یوں بھی وزیر اعظم قوم کو نوید دے چکے ہیں کہ پاکستان دنیا کے طاقت ور ممالک کی صف میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ گویا تحریک انصاف واقعی جہانگیر ترین بننے والی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ چوروں اور لٹیروں سے سیکٹروں ارب روپے کی وصولی کرلی گئی ہے تحریک انصاف نے دوسو چھ ارب روپے کی ریکوری کرکے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کی نشست پر براجمان ہونے کے باوجود اپنی ہمشیرہ کے پلاٹ کا قبضہ چھڑانے میں ناکام رہے ہیں۔ حکومتی ڈھولچی ٹی وی چینلوں پر کاغذ لہرا لہرا کر پیش رو حکومتوں کی کرپشن اور بدعنوانی کا ڈھنڈوا پیٹے رہتے ہیں جو بالآخر ڈھول پیٹے کے مترادف ثابت ہوتا ہے ان کا ڈھول سن سن کر عوام کی سماعت مجروح ہوچکی ہے۔ جن سے بہنے والا خون رکنے کا نام ہی نہیں لیتا وہ اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ حکومت چلانا چلانے والوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف گلا پھاڑ کر کانوں کے پردے ہی پھاڑ سکتے ہیں۔ سابق حکومتوں پر الزام تراشی کرکے اپنی مدت پوری کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے انہیں ملک و قوم سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ صرف اور صرف اقتدار پر قبضہ جمائے رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مگر کب تک بکرے اور بکرے کی ماں کو ایک دن چھری کے نیچے آنا ہی پڑے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات حضرت شبلی فراز کا یہ ڈھلان قابل غور ہے کہ نون لیگ اتنی سفاک اور بے بس ہے کہ میاں نواز شریف اپنی والدہ کی وفات پر اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش سے بعض نہ آئی۔ حکومت نے میاں نواز شریف کو انسانی ہمدردی کے تحت علاج کے لیے بھیجا تھا مگر وہ علاج کے بجائے سیاست کرنے لگے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بیمار ہی نہیں تھے۔ بلکہ جھوٹ کی بیساکھیاں لگا کر گئے تھے۔ یہ کیسی کم عقلی ہے کہ جو دیدہ دانستہ شعور کی تذلیل کر رہی ہے میاں نواز شریف کو رسواء کرنے کی غرض سے طبعی اداروں کو نااہل اور کرپٹ ثابت کرنے کے جتن کیے جارہے ہیں حالانکہ میاں نواز شریف کی بیماری کی سنگینی کی تصدیق کرنے والے اداروں کے سربرہان بارہا حکومت کو چیلنج کرچکے ہیں کہ انہوں نے میاں نواز کی بیماری کی سنگینی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کے تمام ثبو ت موجود ہیں مگر حکومت اور ترجمانوں کی سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ میاں نواز کی بیماری کو مکر وفریب قرار دے کر ملکی اداروں اور طبعی ماہرین کو بے توقیر اور کرپٹ قرار دے رہے ہیں۔ جو سراسر پاکستان کے توہین کے مترادف ہے اور جہاں تک انسانی ہمدردی کا تعلق ہے تو ہمدردی انسانی یا حیوانی نہیں ہوتی صرف ہمدردی ہوتی ہے۔ ہمدردی ایک خدا داد عطیہ ہے جو حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ وطن عزیز کی بد نصیبی یہ ہے کہ اس کے مقسوم میں ایسے ایسے حکمران لکھ دیے گئے جو حیوانی ہمدردی کے ماہر ہیں انہوں نے میاں نواز شریف سے ہمدردی کا اظہار کرکے حیوانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کے ایک مخصوص ٹولے نے میاں نواز شریف کو علاج کے لیے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت بیرون ملک بھیجا۔ تاکہ تحریک انصاف اپنی حیوانیت کی تسکین کرسکے۔ اور اب وہ اپنی جھوٹی انا کی تکمیل کی خاطر میاں نواز شریف کو بھگوڑا قرار دے رہی ہے۔ جب ان کی انا مطمئن نہ ہوئی تو اشتہاری قرار دے کر ایک ٹانگ پر ناچنے کا شغل فرمانے لگے۔ مگر رانیں پیٹنے، بغلیں بجانے میں بھی مزہ نہ آیا تو میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ کی وفات پر اپنی گھنائونی انا کا اظہار کرنے سے بھی بعض نہ آئے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ میاں نواز شریف نے اپنے اثر و رسوخ کا سہارا لے کر اپنے پائوں قبر میں لٹکے ہوئے دکھائے تو یہ کس کی حماقت ہے۔ اور یہ کیسے ممکن ہوا اس کا ذمے دار کون ہے؟ اگر کسی مہذب ملک میں ایسا واقعہ ظہور پزیر ہوا ہوتا تو حکومت مستعفی ہوچکی ہوتی۔ مگر وزیر اعظم عمران خان استعفا دینے کے بجائے میاں نواز شریف کو مورد الزام ٹھیرا رہے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر احساسات اور جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ اور قوم کو یہ باور کرارہے کہ وہ نواز شریف کو پاکستان لا کر ہی دم لیں گے مگر ان کی دم سازی فی الحال بنی گالہ تک محدود ہے۔ میاں نواز شریف کی والدہ کی وفات پر موصوف نے یہ خبر بھی چلائی کہ میاں نواز شریف اپنے والدہ کی تدفین کے لیے پاکستان آ سکتے ہیں حکومت انہیں گرفتار نہیں کرے گی۔ انہوں نے اس خبر سے خود کو اعلیٰ ظرف ثابت کرنے کی سعی نامشکور فرمائی جو ان کی ذہنیت کی عکاس ثابت ہوئی۔