سرحدی ڈپلومیسی: ایران، پاکستان تجارت کا فروغ

124

ایران اور پاکستان، دو پڑوسی، دوست اور برادر ممالک ہیں جن کی باہمی سرحدیں ۱۰۰۰ کیلومیٹر پر مشتمل ہیں اور دونوں ملکوں میں دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے کے لیے بے شمار مواقع اور امکانات موجود ہیں۔ اس کے باوجود دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم ان مواقع اور امکانات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے، ’’پڑوسی پہلے‘‘ کی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں جیسا کہ تجارتی، ثقافتی، سیاسی، سیکورٹی اور عوامی سطح پر تعاون کو بڑھانے میں خاص توجہ دی گئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ سرحدی ڈیپلومیسی کو مزید فروغ دینا، ایران کی ’’پڑوسی پہلے‘‘ پالیسی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسی غرض سے، دونوں ممالک نے سرحدی گزرگاہوں کو کھولنے اور مشترکہ سرحدوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ اور قابل تعریف کوششیں کیں۔ آج ایران اور پاکستان کی وسیع سرحدیں دونوں ملکوں کے درمیان معاشی خوشحالی اور تعلقات عامہ کے فروغ کے لیے سنہری موقع بن چکی ہیں۔
ریمدان اور گبد دونوں ملکوں کی سرحدی ڈیپلومیسی شروع کرنے کا پہلا قدم ہے۔ یہ سرحد جو دونوں ملکوں کے لیے بے شمار اقتصادی فوائد کا حامل ہے، ایران اور پاکستان کے مابین تجارتی تبادلے اور عوامی تعلقات کو مزید فروغ دینے کا ذریعہ ہے۔ ایران ان تجارتی تبادلوںکو فروغ دینے کے لیے اب تک چار ملین ڈالر اور چھ ہزار ہیکٹر رقبے کو ریمدان سرحد کے بنیادی ڈھانچے کے لیے مختص کرچکا ہے تا کہ دونوںممالک اس مشترکہ سرحد سے جو کہ چابہار پورٹ سے ۱۳۰ کلومیٹر دور واقع ہے، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔
ایران اس سرحد پر مویشیوں، پھل اور سبزیوں کی تجارت کے لیے بہت عمدہ تکنیکی سامان فراہم کرچکا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم وقت میں دیگر تجارتی شعبے جیسا کہ تعمیراتی مواد کے لیے ضروری سہولتیں مہیا ہوسکے۔ اس سرحد کی ایک خصوصیت، پاکستان سے ایران آم برآمد کرنے کے سہولتیں ہیں، تا کہ آج سے، اس پاکستانی پہل جس کو ایران میں بے شمار پزیرائی ملتی ہے، کی برآمد مزید آسان ہوجائے۔ کلی طور پر، ایران چاہتا ہے کہ اس سرحد کو کم سے کم وقت میںایک بین الاقوامی معیار کا حامل سرحد بنائے۔ یہ سہولت اور اس سرحد کا چابہار پورٹ کی قریب واقع ہونا، پاکستانی تاجروں کے لیے بے مثال موقع ہے کہ وہ ایرانی منڈی، وسطی ایشیائی ممالک، خلیج فارس کے ممالک اور یورپی ممالک تک آسان اور سستی رسائی حاصل کریں۔
ایرانی تاجر بھی اس سرحد سے پاکستان اور چین کی بڑی منڈی تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔ مزید برآں، ریمدان۔ گبد سرحد دونوں ممالک کے درمیان سفر کے وقت کو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے جو بذات خود عوامی تبادلے کو بڑھانے میں ایک اہم عنصر بن سکتی ہے۔ اس طرح کے تعاون سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ سرحدوں پر تجارتی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کا دونوں ممالک اور خطے کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کا دورہ اسلام آباد اور کورونا جیسی وبا کے عروج پر ریمدان۔ گبد سرحد کا سرکاری طور پر افتتاح ہونا، اس مشترکہ عقیدے کا غماز ہے۔ اسی سلسلے میں، دونوں ممالک مزید سرحدی گزرگاہوں کو کھولنے پر کام کر رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے مابین تجارت اور تبادلے میں اضافے سے، سرحدوں کی رہائشیوں کی فلاح و بہبود اور روزگار میں یقینا اضافہ ہوگا اور بدامنی کے مواقع میں کمی آئے گی۔ میں امید کرتا ہوں دونوں ممالک کے مابین سرحدی ڈپلومیسی کو سنجیدگی سے فروغ دینے سے، خاص طور پر پیشین۔ مند سرحد کے جلد سے جلد افتتاحی عمل سے، ایران اور پاکستان کی تعلقات پہلے کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہوں گے۔