علامہ خادم حسین رضویؒ 1966۔۔۔۔2020

301

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم ؐ کے سچے محب، پاسبانِ ختم نبوت، محافظِ ناموسِ رسالت، مجاہدِ حرمتِ مقدّساتِ دین علامہ خادم حسین رضوی آن بان اور شان کے ساتھ جیے اور اُس سے بھی بڑی شان کے ساتھ عازمِ سفرِ آخرت ہوئے۔ جیے تو لبرلز کے سینے پر مونگ دلتے رہے، اُن کے دلوں میں چبھتے رہے، آنکھوں میں کھٹکتے رہے اور سفرِ آخرت پر چلے تو سب کو شرمسار کرگئے۔ سارے لبرلز زندگی میں انہیں کوستے رہے، دل کی بھڑاس نکالتے رہے، اپنی دانست میں اُن کے وڈیو کلپ نکال نکال کر عوام کے دلوں میں اُن کے وقار کو کم کرنے کی سعی کرتے رہے، لیکن اُن کی وفات کے بعد وہی لوگ عوام کے دلوں میں اُن کی بے پناہ محبت کے مظاہر دیکھ کر عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے، فیض احمد فیض نے شاید انہی کے لیے کہا تھا:
مرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ ِ یار ہم نے قدم قدم، تجھے یادگار بنا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
مگر چونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمؐ کی بارگاہ میں حضوری کے سفر پر جارہے تھے، اس لیے غرورِ عشق کا بانکپن نہیں تھا، بلکہ بندگی کا عَجز تھا، غلامی کی تواضع تھی، اپنے آقا کے حضور نیاز بھی اور اُن کی رحمت پر ناز بھی تھا۔ سر پر دستار سجی تھی، لبوں پر ہلکی سی تبسم کی کیفیت تھی۔ لوگوں کو گلہ رہتا تھا کہ علامہ خادم حسین رضوی کے چہرے پر ہمیشہ کرختگی اور غیظ وغضب کی کیفیت طاری رہتی ہے، یہ کیفیت دراصل گستاخانِ رسول کے لیے تھی، دشمنانِ دین کے لیے تھی، اُن کا چہرہ اُن کی قلبی کیفیات کا آئینہ دار تھا، ظاہر وباطن ایک تھا، اُن کی عقائد ونظریات میں منافقت، ریا اور باطل سے مفاہمت کا شائبہ تک نہ تھا۔ دنیا والوں سے بے پروا رہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّمؐ سے لَو لگائے رہے، اُن کے ناقدین کو کیا خبر کہ انہوں نے اپنا تبسّم کسی اور مرحلے کے لیے بچا رکھا تھا، کسی نے کیا خوب کہا ہے:
نشانِ مردِ مومن با تو گویم
چوں مرگ آید، تبسّم بر لبِ اُوست
ترجمہ: ’’اے مخاطَب! تجھے مردِ مومن کی نشانی بتاتا ہوں، جب موت کا وقت آتا ہے تو اُس کے لبوں پر تبسم آمیز کیفیت ہوتی ہے‘‘۔ علامہ یحییٰ بن شرف الدین نووی نے لکھا ہے:
’’رِبْعِی بِن حِرَاش جلیل القدر تابعی تھے، دوسری صدی ہجری کے اوائل میں اُن کا وصال ہوا، زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا، انہوں نے قسم کھا رکھی تھی کہ اپنا انجام معلوم ہونے تک ہنسیں گے نہیں، سو زندگی بھر نہ ہنسے، مگر جب وفات پائی تو اُن کی میت کو غسل دینے والے نے کہا: ’’وہ مسلسل اپنے تخت پر مسکراتے رہے اور ہم انہیں غسل دیتے رہے اور یہ کیفیت آخر تک جاری رہی، اُن کی اس کیفیت کو دیکھ کر اُن کے بھائی ربیع نے بھی ایسی ہی قسم کھائی اور ایسی ہی قابلِ رشک موت انہیں نصیب ہوئی، (شرح النووی علیٰ مسلم)‘‘، مولانا آسی غازی پوری نے کہا تھا:
اب تو پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسی
ہے شبِ گور بھی، اُس گُل سے ملاقات کی رات
احمد رضا قادری نے بحرِ عشقِ مصطفی کی گہرائیوں میں ڈوب کر کہا:
جان تو جاتے ہی جائے گی، قیامت یہ ہے
کہ یہاں مرنے پہ ٹھیرا ہے نظّارہ تیرا
تجھ سے در، درسے سگ اور سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے، دُور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں، نہیں مارے جاتے
حَشْر تک میرے گلے میں رہے پٹّا تیرا
ہماری یہ باتیں دیوانوں کی باتیں ہیں، عقل کے پرستار اور لبرل دانشور اسے نہ پڑھیں، اُن کی صحت پر شاید اچھا اثر مرتب نہ ہو۔ حال ہی میں یوٹیوب چینل اسٹوڈیو 5 کے لیے ایک انٹرویو میں مجھ سے سوال ہوا: ’’علامہ خادم حسین رضوی کے بارے میں کہا جاتا ہے: یہ پلانٹڈ تھے، اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں‘‘، میں نے جواب میں عرض کیا: ’’پلانٹڈ کے معنی ہیں: کسی کا کاشت کیا ہوا پودا، کسی کی
جانب سے اپنے ایجنڈے پر لانچ کیا ہوا فرد، الغرض ہمارے ہاں بدگمانی اور بدنیتی کا شعار عام ہے، سو میرا سوال یہ ہے: اگر علامہ خادم حسین رضوی جیسے شاہکار کسی ٹکسال میں ڈھلتے ہیں یا کسی ادارے کی جانب سے پلانٹ کیے جاتے ہیں، تو آپ کی مشینیں اور ٹکسال بند تو نہیں ہوگئے، ایسا کوئی شاہکار دوسرا پیدا کرکے دکھائیے اور پھر اسے ملک کے اندر اور بیرونِ ملک کروڑوں انسانوں کے دلوں میں بٹھاکر دکھا دیجیے، ہم آپ کی کرامت یا کرشماتی کمال کو تسلیم کرلیں گے، مسیحائی اور مُردوں میں جان ڈالنے کا معجزہ اللہ تعالیٰ نے مسیحؑ کو اور اس سے بھی آگے بے جان میں جان ڈالنے کا اعجاز خاتَمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہؐ کو عطا فرمایا تھا‘‘۔ البتہ اگر ہم نادانوں کی بات پر کسی کو یقین آتا ہو تو ہمارا ایمان ہے: ایسے اشخاص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمؐ کی جانب سے اپنے نوامیسِ مقدّسہ اور اپنے دین کی حفاظت کے لیے وقتاً فوقتاً بھیجے جاتے رہے ہیں اور بھیجے جاتے رہیں گے، رسول اللہؐ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی کے سرے پر ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس امت کے لیے دین کو (ہر ملاوٹ اور باطل کی آمیزش سے پاک کر کے) پیش کرے گا۔ علامہ خادم حسین رضوی ایسے ہی اشخاص میں سے ایک تھے جو روز روز پیدا نہیں ہوتے، اللہ کی قدرت سے کبھی کبھار منصّۂ شہود پر آجاتے ہیں۔
مفتی عابد مبارک راوی ہیں: ’’علامہ خادم حسین رضوی کے جواں عمر صاحبزادے اور تحریک لبیک کے نومنتخب امیر حافظ سعد حسین رضوی نے بتایا: علامہ صاحب اپنے وصال سے کچھ پہلے کافی دیر تک اپنے تمام تر ہوش وحواس کے قائم رہتے ہوئے اُن سے باتیں کرتے رہے، اُس وقت انہیں شدید بخار تھا۔ سعد حسین رضوی بیان کرتے ہیں: میں نے باتوں کے دوران کہا: ابا جی! ہم دونوں خاموشی سے مدینۂ منورہ چلے جاتے ہیں، انہوں نے پنجابی میں اپنے فرزند سے کہا: جھلّیا! (دیوانے) تینوں ہوش اے، میں کس منہ دے نال حضور دی بارگاہ وِچ جانواں گا، جے میں زندہ آں تے حضور دی گستاخیاں ہوریاں نیں‘‘۔ پھر باپ نے بیٹے سے کہا: ’’میں تیری شادی دی تاریخ دسمبر وچ مقرر کردتّی اے، پر میں تیرا نکاح آپ نئیں پڑھانڑاں، میں کسی مولوی صاب کولوں پڑھاواں گا، اپنڑی ماں نو آکھیں: لفافہ بھاری جیا تیار کرکے رکھے‘‘ اور واقعی وہ اپنے بیٹے کا نکاح نہ پڑھا سکے، اُن کی پیشگوئی کے مطابق کوئی اور ہی پڑھائے گا، اسی کو تصوف کی زبان میں ’’کشف‘‘ کہتے ہیں۔ سعد بیان کرتے ہیں: ’’پھر والد نے کہا: مجھے رضائی اوڑھادو اور بتی بند کردو، اتنے میں انہوں نے جھرجھری لی، چہرہ قبلے کی طرف ڈھلک گیا اور روح پرواز کرگئی،فَاِنّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وُکُلٌّ شَیْیئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی۔ انہوں نے خود اپنے ایک خطاب کے دوران کہا:
جب روح میرے پیراہنِ خاکی سے نکلے
تو روضے سے آواز آئی: ’’او میرا فقیر آیا‘‘
علامہ خادم حسین رضوی، مولانا محمد علی جوہر کے اس شعر کا مصداق تھے:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
انہوں نے اپنے ایک خطاب میں معترضین کو جواب دیتے ہوئے کہا: ’’منافق کسی حال میں راضی نہیں ہوتا، مولوی حق کے لیے نہ نکلے تو کہتے ہیں: ’’حرام خورہوگیا‘‘ اور نکلے تو کہتے ہیں: ’’حلوہ خطرے میں پڑ گیا‘‘ اور جب کامیابی ملتی ہے تو کہتے ہیں: ’’اکیس کروڑ روپے لے لیے‘‘۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی ساری متاعِ زیست بارگاہِ رسالت میں لاکرپیش کردی، تو منافقین نے اسے ریاکاری سے تعبیر کیا اور سیدنا ابوعقیل انصاری شب بھر مزدوری کر کے دو کلو لے کر آئے تو منافقین نے کہا: اللہ کو اس حقیر صدقے کی کوئی حاجت نہیں ہے‘‘، آگے پتا چل جائے گا:
ہم سوئے حشر چلیں گے شہِ ابرار کے ساتھ
قافلہ ہوگا رواں قافلہ سالار کے ساتھ
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ
کون روتا ہے لپٹ کر در و دیوار کے ساتھ
میں نے اُن کے سِوُم کی محفلِ ایصال ثواب میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا تھا:
’’علامہ خادم حسین رضوی دنیاوی رشتوں کے حوالے سے میرے کچھ نہیںتھے، لیکن دینی رشتے کے حوالے سے میرا سب کچھ تھے، میں تحریک لبیک پاکستان کا کبھی رکن نہیں رہا، مگر امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی اپنی تحریک سمیت میرے قلب میں رچے بسے رہے۔ میں نے اپنی شعوری زندگی میں حسینیت کا نعرہ لگانے والے اور خونِ شہدائے کربلا کو لوگوں کی عقیدت کے آنسوئوں میں ڈھال کر اپنی جیبوں اور تجوریوں کو بھرنے والے تو بہت دیکھے ہیں، لیکن اپنے آپ کو حسینی کردار میں ڈھال کر یزیدِ وقت اور ہر باطل کے سامنے ڈٹ جانے والے بہت کم دیکھے ہیں، میں آج لاکھوں انسانوں کو گواہ بناکر اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں شہادت دیتا ہوں کہ خادم حسین رضوی نے اپنی بساط کے مطابق حسینی کردار کو زندہ کیا،
نوجوانوں کے دلوں میں، انگ انگ میں، رُوئیں رُوئیں، ہر بُنِ مُو اور ہر قطرۂ خون میں عشقِ مصطفیؐ کو کُوٹ کر بھردیا اور ایک ایسا روحانی کرنٹ دوڑا دیا کہ آنسو گیس کے گولوں کا ڈھیر بھی اُن کے عزم کو نہ توڑ سکا اور اُن کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی‘‘۔
علامہ صاحب پر ایک نقطہ چینی ان کے بعض ریمارکس کے بارے میں ہوتی تھی، جن کے بارے میں اُن کا کہنا تھا: ’’میرے پاس قرآن وحدیث سے منکرین ومنحرفین کے بارے میں جواز کے دلائل موجود ہیں‘‘، میں نے ایک ملاقات میں ان سے عرض کیا: یہ دلائل ہمارے اکابر کے پاس بھی تھے، لیکن انہوں نے مخالفین کے بارے میں کبھی ایسا اندازِ بیاں اختیار نہیں کیا، چنانچہ2018 کے دھرنوں کے بعد انہوں نے یہ اندازِ بیاں ترک کردیا، میں نے رب کریم کا اور ان کا شکر ادا کیا، مخالفین اب بھی وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا سے ایسی باتیں نکال کر لے آتے ہیں، مگر شریعت کا حکم یہ ہے کہ کسی کی وفات کے بعد اس کا ذکر صرف اچھے اوصاف کے ساتھ کرنا چاہیے، کردار کی پاکیزگی کے لیے اتنا ہی ثبوت کافی ہے کہ اس مردِ درویش نے، جس پر لوگ ہزاروں لاکھوں روپے نچھاور کرتے تھے، مسجد کے تین مرلے کے مکان میں ساری زندگی گزاری اور رب کی رضا پر راضی رہے۔